ڈس انفارمیشن ٹول کٹ

کاؤنٹر اسپیچ برائے ڈس انفارمیشن کیا ہے؟

ڈس انفارمیشن کے تناظر میں کاؤنٹر اسپیچ کی تعریف فعال اور رد عمل پر مبنی ابلاغ کے طور پر کی جاسکتی ہے جس کا مقصد ڈس انفارمیشن کو درست کرنا، قابل اعتماد معلومات کو اجاگر کرنا اور گم راہ کن بیانیوں کے خلاف لچک پیدا کرنا ہے۔

ڈس انفارمیشن کے خلاف کاؤنٹر اسپیچ دو سطحوں پر ہوتی ہے۔

پہلا، کمیونٹیاں، پلیٹ فارم، تنظیمیں اور حکام فعال کاؤنٹر اسپیچ میں مشغول ہوسکتے ہیں۔ وہ فیکٹ چیکنگ کرنے والی معلومات اور ذرائع کے ذریعے گردش میں موجود ٹھوس جھوٹی خبروں کو مسترد کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے ادارے پیشگی تردید(prebunking)کی سہولت کاری بھی فراہم کرسکتے ہیں، یعنی، وہ قابل عمل مشورے دے سکتے ہیں کہ کس طرح صارفین خود ڈس انفارمیشن کی نشان دہی کرسکتے ہیں اور ٹھوس ڈس انفارمیشن کے سامنے آنے سے پہلے ہی انھیں اپنا فیکٹ چیکر بناسکتے ہیں۔

دوسرا، انفرادی صارفین کاؤنٹر اسپیچ کی غیر فعال شکلوں میں مشغول ہوسکتے ہیں۔ توجہ دے کر اور ڈس انفارمیشن کے بارے میں آگاہی پیدا کرکے، صارفین ڈس انفارمیشن پر یقین کرنے اور اسے آگے بڑھانے سے گریز کرکے ڈس انفارمیشن کے پھیلاؤ کا غیر فعال طور پر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ انفرادی صارفین صرف رونما ہونے والے واقعات پر درست اور قابل اعتماد خبریں شیئر کرکے فعال کاؤنٹر اسپیچ میں مشغول ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات اچھے ارادے رکھنے والے انفرادی صارفین بھی ازراہ مذاق جان بوجھ کر ڈس انفارمیشن کو فعال طور پر شیئر کرتے ہیں۔ تاہم، صارفین کے درمیان بڑے پیمانے پر فعال کاؤنٹر اسپیچ کی اس طرح کی شکلیں الٹا اثر ڈال سکتی ہیں کیوں کہ دوسرے صارفین بعد میں ایسی ڈس انفارمیشن کو یاد رکھ سکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ یہ معلومات غلط تھی۔

ڈس انفارمیشن کیا ہے؟

ڈس انفارمیشن وہ جھوٹی معلومات ہیں جو جان بوجھ کر دھوکہ دینے یا گم راہ کرنے کے ارادے سے بنائی اور پھیلائی جاتی ہیں۔ اس کی خصوصیت ڈس انفارمیشن کی بامقصد تیاری یا غلط بیانیہ تخلیق کرنے کے لیے موجودہ معلومات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا ہے۔ ڈس انفارمیشن کے پس پردہ مقصد اکثر نقصان پہنچانا، الجھن پیدا کرنا، تنازعات کو بھڑکانا، یا رائے عامہ یا رویوں کو ایک خاص طریقے سے متاثر کرنا ہوتا ہے۔

ڈس انفارمیشن کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ نسلی فسادات سے پہلے اکثر دیگر نسلی گروہوں کے بارے میں ڈس انفارمیشن پائی جاتی ہے جن میں بچوں اور خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں ڈس انفارمیشن بھی شامل ہے۔ ڈس انفارمیشن کی نمایاں سیاسی مثالوں میں یہ الزام شامل ہے کہ 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات انتخابی دھوکہ دہی سے جیتے گئے تھے۔ کوویڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران ڈس انفارمیشن کی بہت سی مثالیں بھی دیکھی گئیں جن میں ویکسین کے سائیڈ افیکٹس اور کوویڈ 19 کے متبادل علاج کے بارے میں ڈس انفارمیشن بھی شامل ہے۔

ڈس انفارمیشن کے خلاف کاؤنٹر اسپیچ کی کیس اسٹڈیز

ڈس انفارمیشن کے خلاف کاؤنٹر اسپیچ کا ایک نمایاں طریقہ تردید (debunking)یا فیکٹ چیکنگ ہے۔ یہ فیکٹ چیکروں اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے تعاون سے انجام دیا جاتاہے جہاں صحافی یا دیگر فیکٹ چیکر نشان دہی کرتے ہیں کہ گردش کرنے والی معلومات غلط یا گم راہ کن ہیں اور سوشل میڈیا کمپنیاں بعد میں اس معلومات کو گم راہ کن قرار دیتی ہیں۔ فیکٹ چیکنگ اس لحاظ سے مفید ہے کہ وہ ڈس انفارمیشن میں یقین کو کم کرتی ہے، حالاں کہ یہ اثرات قدرے چھوٹے اور عارضی پائے گئے ہیں۔ مزید برآں، ایک عملی مسئلہ یہ ہے کہ فیکٹ چیکنگ کے مقابلے میں زیادہ ممکنہ ڈس انفارمیشن گردش میں ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیا اداروں کی جانب سے فیکٹ چیکنگ کا خطرہ سیاستدانوں کو جواب دہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

چوں کہ فیکٹ چیکنگ اور اسے نشر کرنے کے لیے اعلی وسائل درکار ہیں ، لہذا ڈس انفارمیشن کے ازالے کے لیے پیشگی تردید (پری بنکنگ) کے ذریعے آن لائن سامعین کو بااختیار بنانے کی کوششوں پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔

پری بنکنگ کی ایک شکل  نجنگ (nudging) ہے۔ اس حکمت عملی کی بنیاد یہ ہے کہ پیشگی طور پر صرف درست خبروں پر یقین کرنے اور شیئر کرنے کی ترغیب دی جائے اور جب صارف سوشل میڈیا براؤز کرے تو اس محرک کو یاد رکھنے کے لیے ایک سادہ یاد دہانی موجود ہو۔ اس طرح کے ’’تصحیحی اشاروں‘‘ کی مثالیں وہ پاپ اپ سوالات ہیں جو لوگوں سے پوچھے جاتے ہیں کہ آیا وہ کسی خبر کو سچ مانتے ہیں یا کیا ضروری ہے کہ صرف درست معلومات شیئر کی جائیں۔ متعدد مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ نجنگ متعدد مختلف ثقافتی ماحول میں کام کرتی ہے لیکن یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اثرات کم ہیں۔ بایں ہمہ، نجنگ تیزی سے مکمل کیے جاسکتے ہیں اور حقیقی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انھیں لاگو کرنا آسان ہے۔ یہ ایک بڑا فائدہ ہے۔

پری بنکنگ کی ایک اور شکل گیمیفائڈ مداخلت کے ذریعے ذہن سازی اور تلقیح (inoculation)ہے۔ جہاں نجنگ کا فوکس صارفین کی حوصلہ افزائی پر ہے، وہیں گیمز ذہن سازی کے ذریعے بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ بنیادی خیال یہ ہے کہ لوگ ایسے گیمز کھیل کر ڈس انفارمیشن پیدا کرنے والوں کی مخصوص حکمت عملی سیکھ سکتے ہیں جو انھیں اس طرح کے لوگوں کے کردار میں ڈالتے ہیں۔ کئی مختلف گیمز ڈیولپ کی گئی ہیں جن میں ایسی گیمز بھی شامل ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی اور کووڈ 19 جیسے مخصوص موضوعات پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گیم میں تیار ہوئی صلاحیتیں لوگوں کو لیبارٹری کے ماحول اور حقیقی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز دونوں پر ڈس انفارمیشن کی شناخت کرنے میں مدد دے سکتی ہیں اور یہ کہ سیکھی ہوئی صلاحیتیں کئی مہینوں کے عرصے میں صارفین کو بااختیار بناتی رہتی ہیں۔ وہیں، ان گیمی فائیڈ مداخلتوں کو مکمل کرنے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے اور لہذا ان کا واضح ٹریننگ سیشنوں (مثال کے طور پر، اسکولوں یا کام کے مقامات ) سے باہر آن لائن ماحول میں چلانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

پری-بنکنگ کی مداخلت کی ایک آخری شکل ، ڈیجیٹل میڈیا خواندگی (media literacy) بھی صلاحیت سازی کی سمت مرکوز ہے۔ اگرچہ گیمی فائیڈ مداخلتیں بالواسطہ طور پر صلاحیت فراہم کرتی ہیں کیوں کہ صارف گیم کھیلتا ہے، تاہم ڈیجیٹل میڈیا خواندگی کی مداخلتیں آن لائن جھوٹی خبروں کی نشان دہی کرنے کےحوالے سے زیادہ براہ راست ہدایات فراہم کرتی ہیں، اور یہ بنیادی طور پر صارف کو فیکٹ چیکر میں تبدیل کردیتی ہیں۔ ذیل میں فیس بک کی جانب سے اپنے صارفین کو براہ راست ان کے پلیٹ فارم پر اور ریاستہائے متحدہ ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، میکسیکو اور بھارت کے اخبارات میں اشتہارات میں فراہم کردہ قابل عمل مشوروں کی ایک نمایاں مثال پیش کی گئی ہے۔

  • سرخیوں  پر شک کریں۔  جھوٹی خبروں  میں اکثر بڑے حروف میں  دل چسپ  سرخیاں ہوتی ہیں، جن میں   استعجابیہ علامات ہوتی ہیں۔ اگر  شہ سرخی میں چونکا دینے والے دعوے ناقابل یقین لگتے ہیں، تو شاید وہ ناقابل یقین ہی ہیں۔
  • یو آر ایل پر غور کریں۔ جعلی یا ملتے جلتے یو آر ایل جھوٹی خبروں کی انتباہی علامت ہوسکتے ہیں۔ بہت سی جھوٹی خبروں کی سائٹیں یو آر ایل میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کرکے مستند خبروں کے ذرائع کی نقل کرتی ہیں۔ آپ مستند ذرائع سے یو آرایل کا موازنہ کرنے کے لیے متعلقہ سائٹ پر جا سکتے ہیں۔
  • ماخذ کی تحقیقات کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کہانی کسی ایسے ذریعہ سے لکھی گئی ہو جس کی درستی کی ساکھ پر آپ بھروسا کرتے ہوں۔ اگر کہانی کسی غیر معروف ادارے سے آئی ہے تومزید جاننے کے لیے ان کی سائٹ کا ’’ہمارے بارے میں‘‘ سیکشن چیک کریں۔
  • غیر معمولی فارمیٹنگ کے لیے دیکھیں۔ بہت سی جھوٹی خبروں کی سائٹوں میں غلط ہجے یا عجیب و غریب لے آؤٹ ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یہ علامات نظر آئیں تو احتیاط سے پڑھیں۔
  • تصاویر پر غور کریں۔ جھوٹی خبروں میں اکثر ایسی تصاویر یا ویڈیو ہوتی ہیں جن سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہوتی ہے۔ بعض اوقات تصویر مستند ہوسکتی ہے، لیکن سیاق و سباق سے ہٹ کر لی جاتی ہے۔ آپ تصدیق کرنے کے لیے تصویر تلاش کرسکتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی ہے۔
  • تاریخوں کا معائنہ کریں۔ جھوٹی خبروں میں ایسی ٹائم لائنز شامل ہوسکتی ہیں جو بے معنی ہوں ، یا واقعات کی تاریخیں جو تبدیل کردی گئی ہوں۔
  • شواہد کی جانچ پڑتال کریں۔ اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے مصنف کے ذرائع کی جانچ پڑتال کریں کہ وہ درست ہوں۔ شواہد کی کمی یا نامعلوم ماہرین پر انحصار جھوٹی خبر کی علامت ہوسکتی ہے۔ دیگر رپورٹوں پر نظر ڈالیں۔ اگر کوئی اور خبر کا ذریعہ اسی کہانی کی اطلاع نہیں دے رہا ہے تو اس سے یہ اشارہ مل سکتا ہے کہ خبر غلط ہے۔ اگر کہانی کو ایسے متعدد ذرائع سے رپورٹ کیا گیاہے جن پر آپ اعتماد کرتے ہیں تو، اس کے سچ ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
  • کیا یہ کہانی مذاق ہے؟ بعض اوقات جھوٹی خبروں کو مزاح یا طنز سے الگ کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ چیک کریں کہ آیا خبر کا ماخذ پیروڈی کے لیے معروف تو نہیں ہے، اور کیا کہانی کی تفصیلات اور لہجے سے لگتا ہے کہ یہ محض تفریح طبع کے لیے ہوسکتی ہے۔ کچھ کہانیاں جان بوجھ کر جھوٹی بنائی جاتی ہیں۔ ایسی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے تنقیدی طور پر غور کریں، اور صرف ان خبروں کو شیئر کریں جن کے بارے میں آپ جانتے ہوں کہ وہ قابل اعتماد ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ان اشتہارات کو دیکھنے اور ان جیسی مداخلتوں سے لوگوں کو ڈس انفارمیشن کی شناخت کرنے اور ان اثرات کے حجم کو نسبتاً بڑا سمجھنے کا زیادہ امکان ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا خواندگی کی مداخلت جزوی طور پر اس لیے مفید ہے کیوں کہ وہ خود کفیلی کا احساس پیدا کرتی ہے اور اس طرح، بااختیار ہونے کا احساس پیدا کرتی ہے۔ تاہم، اس بات کے بعض شواہد موجود ہیں کہ اس طرح کے ڈیجیٹل نکات کا استعمال کرنے کے لیے پہلے سے ڈیجیٹل میڈیا خواندگی ضروری ہے۔ مزید برآں، بہت سے ڈیجیٹل میڈیا خواندگی کی مداخلتیں نسبتاً  تفصیلی اور مبسوط ہیں ، لہذا ان کے لیے واضح تربیت کے سیاق و سباق کی ضرورت پڑتی ہے۔

 

 

غور طلب امور

ڈس انفارمیشن کے خلاف کاؤنٹر اسپیچ میں مشغول ہوتے وقت، مثال کے طور پر صارفین کو بااختیار بنانے کے لیے مداخلتوں کو ڈیزائن کرنے کی شکل میں، بہت سے پہلو قابلِ غور ہیں۔

پہلا، متعدد مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی مداخلتیں جو لوگوں کو ڈس انفارمیشن کی شناخت کرنے میں مدد کرتی ہیں وہ زیادہ عام شکوک و شبہات کو بھی جنم دیتی ہیں ، جیسے، لوگ درست معلومات پر بھی عدم اعتماد کرنا شروع کر دیتے ہیں، بھلے ہی اس کا اثر درست معلومات کے مقابلے غلط کے لیے زیادہ مضبوط ہو۔ لہٰذا ڈس انفارمیشن کے خلاف کاؤنٹر اسپیچ کا بنیادی محور شکوک و شبہات کے بجائے علمی عاجزی (intellectual humility)کو فروغ دینا ہونا چاہیے۔ اگرچہ عام شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کو ڈس انفارمیشن کے اشتراک (مثال کے طور پر سازش سے متعلق مواد) کے ساتھ مثبت طور پر منسلک پایا گیا ہے، لیکن مستقل طور پر پایا گیا ہے کہ علمی عاجزی ڈس انفارمیشن شیئر کرنے کے محرکات کو کم کرتی ہے۔ علمی عاجزی پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ صارف کے علمی لغزش یا خطا کے امکان کی مثالیں پیش کی جائیں۔

دوسرا، کاؤنٹر اسپیچ کی کچھ شکلیں ڈس انفارمیشن کے پھیلاؤ کو روکنے پر توجہ مرکوز کرتی ہیں جب کہ دیگر شکلیں لوگوں کو ڈس انفارمیشن پر یقین کرنے کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز دیتی ہیں۔ ادراکی مزاحمت (cognitive resistance)پر توجہ مرکوز کرنا خاص طور پر اہم ہوسکتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ معلومات چاہے درست ہوں یا غلط، زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر بہت کم انھیں شیئر کرتے ہیں۔ ڈس انفارمیشن کے حوالے سے سب سے عام مسئلہ اس سے پیدا ہونے والی وہ الجھن اور انتشارِتوجہ ہے جو اتفاق سے اسے دیکھنے سے لوگوں میں پیدا ہوتی ہے۔

تیسرا، صارفین کو بااختیار بنانے کے لیے مداخلتوں کو ڈیزائن کرتے وقت اکثر ان کی توسیع پذیری (scalability)اور تکرار پذیری (repeatability) کا لحاظ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ سب سے مؤثر مداخلت کے لیے اکثر واضح تربیت یا ہدایات کے سیاق و سباق کی ضرورت ہوتی ہے، جو کم از کم 5-10 منٹ کو محیط ہے۔ سب سے زیادہ امکان یہ ہے کہ سب سے زیادہ قابل عمل اور مؤثر حکمت عملی وہ ہوگی جو صلاحیت سازی کے لیے واضح تربیت دے گی(مثال کے طور پر، واضح ڈیجیٹل میڈیا خواندگی کی ہدایات اور گیمیفائڈ ریہرسل کا امتزاج)، تحریک قائم رکھنے کے لیے بار بار آن لائن یاد دہانی (مثال کے طور پر، نجنگ کے ذریعے) اور جب ممکن ہو تو براہ راست فیکٹ چیکنگ۔

چوتھا، ڈس انفارمیشن کا پتہ لگایا جاسکتا ہے کیوں کہ اس کی اکثر امتیازی خصوصیات ہوتی ہیں۔ جوں جوں مصنوعی ذہانت بہتر ہوگی ہے اس بات کا امکان ہے کہ ڈس انفارمیشن کا پتہ لگانا مشکل تر ہوتا جائے گا کیوں کہ غلط معلومات زیادہ قریب سے درست معلومات کی نقل کرنے لگیں گی (مثال کے طور پر، مصنوعی طور پر تخلیق کردہ لیکن انتہائی حقیقی لگنے والی ویڈیوز کے استعمال کے ذریعے)۔ ان حالات میں میڈیا اداروں کی جانب سے فیکٹ چیکنگ زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ پھر بھی، مؤثر ہونے کے لیے، ان میڈیا اداروں پر عوام کا اعتماد ہونا ضروری ہے۔ لہذا ڈس انفارمیشن کے بارے میں فکر مند کسی بھی فرد کے لیے توجہ کا اہم مرکز آزاد، خود مختار اور وسائل سے مالا مال میڈیا اداروں کی تعمیر اور انھیں برقرار رکھنا بھی ہے۔

وسائل

یورپین کونسل    –   انتخابی عمل کے دوران نفرت انگیز تقریر سے نمٹنے کے لیے ٹول کٹ (2022)

انٹرایکشن –            ڈِس انفارمیشن ٹول کٹ 2.0

برطانیہ حکومت   – ریزسٹ 2 کاؤنٹر ڈِس انفارمیشن ٹول کٹ

یورپی یونین  –  ڈِس انفارمیشن ٹول کٹ

برطانیہ محکمہ ثقافت ویکسین –  ڈ ِس انفارمیشن ٹول کٹ

امریکی سائبر سیکیورٹی اور انفراسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی –  الیکشن  ڈِس انفارمیشن ٹول کٹ

ایلن ٹورنگ انسٹی ٹیوٹ – کاؤنٹر اسپیچ: آن لائن نفرت سے نمٹنے کا ایک بہتر طریقہ؟

پین امریکہ –  کاؤنٹر اسپیچ  کو  محفوظ طریقے سے مشق کرنے کے لیے رہنما خطوط

گوگل جیگساو –  پری بنکنگ وسائل اور کیس اسٹڈیز

آخری کلمات

ایف ایف ایس مندرجہ ذیل  اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اس نتیجے کی تخلیق میں تمام حمایت فراہم کی۔

 

اس ٹول کِٹ کا  اردو میں ترجمہ افروز عالم ساحل نے کیا ہے۔

تعارف:    افروز عالم ساحل ایک ہندوستانی صحافی اور مصنف ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے مختلف میڈیا اداروں میں صحافی کے طور پر کام کیا ہے اور اب کئی ویب سائٹس اور اخبارات کے لئے فری لانس معاون کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ صحافت کے علاوہ، ساحل ہندی میں سات کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

Media Inquiries
Justin Hayes
Director of Communications
justin@futurefreespeech.com

This toolkit has been translated into Urdu by Afroz Alam Sahil.

Afroz Alam Sahil is an Indian journalist and writer. He has worked as a journalist for various media organizations in India and is now a freelance contributor to several websites and newspapers. In addition to his journalism work, Sahil is the author of seven books in Hindi.