آن لائن نفرت انگیز گفتار (ہیٹ اسپیچ)سے نمٹنے کے لیے کاؤنٹر اسپیچ کے استعمال پر ٹول کٹ

 

 

 

کاؤنٹر اسپیچ کے بارے میں

1. تعارف

دنیا بھر میں زیادہ تر پبلک ڈسکورس فرقہ وارانہ اور زہریلے ہو چکےہیں، خاص طور پر آن لائن ڈسکورس۔ اس کے حل کے لیے، بعض ممالک نے قانون کا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن گفتار کو جرم قرار دینے سے اس کی ضرر رسانی ختم نہیں ہوتی ہے، خاص طور پر غیر محدود، بے سرحد ڈیجیٹل دائرے میں۔ نجی سوشل میڈیا کمپنیوں کے ذریعے بھی مواد کی تعدیل (موڈریشن) پر عمل نہیں کیا جاتا ، حالاں کہ وہ قانون اور اپنے داخلی ضوابط کی خلاف ورزیوں پر روزانہ لاکھوں پوسٹس کو ہٹاتی ہیں۔ دسکورس کو بہتر بنانے کا ایک اور طریقہ ہے جو اب تک بڑی حد تک توجہ سے دور رہا ہے: نچلی سطح پر کاؤنٹر اسپیچ۔ یہ زیادہ توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے۔ بہرحال، قانون یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ گروہی اصولوں کا آف لائن انسانی گفتار اور رویے پر سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے، یعنی وہ غیر محررہ لیکن طاقتور اصول جن کی روشنی میں برادریاں ایک دوسرے سے تعامل کرتی ہیں۔ 

ان گنت غیر ریکارڈ شدہ گفتگو ؤں میں ہمیشہ رویہ جاتی اصول سکھائے اور نافذ کیے گئے ہیں، خاص طور پر ان افراد کے ذریعے جو اپنے سامعین کو ذاتی طور پر جانتے ہیں ، مثلاً والدین، اساتذہ، ہم جماعت، پادری، پڑوسی – نہ کہ حکومتیں، کمپنیاں، یا دیگر ادارے۔ یہ چیز عین اسی طرح آن لائن کام نہیں کرتی، کیوں کہ انٹرنیٹ نے انسانی مواصلات کو اہم، متعلقہ طور سے تبدیل کردیا ہے: 1) لوگ ان معاشرتی رکاوٹوں کے بغیر بول سکتے اور برتاؤ کرسکتے ہیں جیسا وہ آف لائن محسوس کرتے ہیں۔ 2) اجنبی، بشمول بے حدمتنوع افراد، ایک دوسرے کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ تعامل کرتے ہیں۔ اور 3) آن لائن ڈسکورس اکثر ریکارڈ کی جاتی ہے، اور اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ 

 زیادہ تر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مواصلات کو ان کمپنیوں کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے جو پلیٹ فارمز کی مالک ہیں اور انھیں چلاتی ہیں، نیز، بہت کم حد تک حکومتوں کے ذریعے جو کمپنیوں کو گفتار کی مخصوص شکلوں کو دبانے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کنٹرول کی یہ اوپر سے نیچے کی شکلیں اب تک آن لائن ڈسکورس کو بہتر بنانے کے بارے میں پالیسی بحث پر غالب رہی ہیں۔ البتہ دریں اثنا،ہزاروں لوگوں نے خاموشی سے یہ ذمہ داری قبول کر لی ہے کہ وہ آن لائن کاؤنٹر اسپیچ کریں گے، یعنی نفرت انگیز، ضرر رساں یا قابل اعتراض مواد کا جواب دے کر اپنے ڈسکورس کے اصولوں کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ 

 ڈینجرس اسپیچ پروجیکٹ  (ڈی ایس پی ) ضرر رساں مواد کے بہترین رسپانس کی تلاش کرتا ہے، خاص طور پر وہ مواد جو بین گروہی تشدد کے خطرے کو بڑھاتا ہے، جسے وہ خطرناک گفتار کہتا ہے۔ کئی سال پہلے، انھوں نے بعض کاؤنٹر اسپیکروں کو اس کام میں مشغول پایا۔ ٹیم نے مزید تلاش شروع کی، اور آہستہ آہستہ بہت سے مزید افراد مل گئے۔ 

 ان میں سے کچھ تنہا کام کرتے ہیں، اور بہت سے ایک ساتھ منظم گروہوں میں کاؤنٹر اسپیچ کا کام انجام دیتے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ نچلی سطح پر ان کی کوششیں حقیقی ہیں۔ تمام کاؤنٹر اسپیکر رضاکارانہ طور پر، بغیر تنخواہ کے، اس کام کو ذمہ داری سے انجام دیتے ہیں۔ 

 ڈینجرس اسپیچ پروجیکٹ  (ڈی ایس پی ) نے ان کا اور ان کی کوششوں کا مطالعہ کیا ہے، کاؤنٹر اسپیکروں کا پہلا ایتھنوگرافک مطالعہ تیار کیا ہے، وہ کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس پر ایک تفصیلی مقالہ تیار کیا ہے، اور اس تحقیق کا جائزہ لیا ہے کہ اصل میں ان کی کوششوں کا کیا اثر پڑ رہا ہے۔ عام طور پر، ان کے مقاصد کافی ملتے جلتے ہیں، تاہم ان کی تکنیکیں حیرت انگیز طور پر مختلف ہیں۔ اس سارے کام سے، جو جہاں تک ہم جانتے ہیں، کاؤنٹر اسپیچ پر تحقیق کے سب سے بڑے ادارے ڈی ایس پی نے اس ٹول کٹ کے لیے مواد تیار کیا ہے۔ 

2.۔ کاؤنٹر اسپیچ کیا ہے؟
  •  ڈینجرس اسپیچ پروجیکٹ کاؤنٹر اسپیچ کی تعریف یوں کرتا ہے کہ ’’نفرت انگیز یا ضرر رساں گفتار کا کوئی بھی براہ راست ردِ اظہار جو اسے کم زور کرنے کی کوشش کرے۔ ڈی ایس پی کاؤنٹر اسپیچ کو جوابی بیانیے سے ممیز کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کسی خاص مواد کا جواب دیے بغیر، دوسرے کے برعکس نقطہ نظر پیش کرنا، لہذا مثال کے طور پر کوئی فیمنسٹ مضمون ’عورت دشمنی‘ کا جواب ہوگا۔
  •   اسی طرح کونسل آف یورپ کاؤنٹر اسپیچ کو جوابی بیانیے سے ممیزکرتی ہے، جسے وہ ’’متبادل گفتار‘‘ کہتی ہے۔ کونسل کے مطابق، ’’اگرچہ کاؤنٹر اسپیچ نفرت انگیز پیغامات پر ایک مختصر اور براہ راست ردِ اظہار ہے، تاہم متبادل گفتار عام طور پر نفرت انگیز گفتار کو چیلنج یا براہ راست مخاطب نہیں کرتا بلکہ اس کے بجائے بحث کے فریم کو تبدیل کرتاہے۔
  • شہری آزادیوں کی وکالت کرنے والی اور امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کی سابق صدر نادین سٹروسن، جو امریکہ کی وکالت کرنے والی ایک قابل احترام تنظیم ہے، جوابی بیانیے کو کاؤنٹر اسپیچ کی ایک شکل قرار دیتی ہیں۔ انھوں نے کاؤنٹر اسپیچ کو ’’کسی بھی ایسی گفتار کے لیے ایک مختصر مدتی بیان قرار دیاہے جو نفرت انگیز گفتار یا دیگر متنازعہ گفتار کے ممکنہ منفی اثرات کا مقابلہ کرنے یا کم کرنے کی کوشش کرے۔ کاؤنٹر اسپیچ کی ایک بڑی شکل تعلیم یا معلومات ہے جو ان خیالات اور رویوں کا مقابلہ کرتی ہے جو مسئلہ انگیز گفتار کی عکاسی کرتے ہیں۔
  •  مینر ہیم لیگ فار چائلڈ ویلفیئر رقم طراز ہے کہ ’’کاؤنٹر اسپیچ نفرت انگیز گفتار کے برعکس ہے۔ کاؤنٹر اسپیچ انسانی اور ہمدردانہ اظہار ہے۔ کاؤنٹر اسپیچ کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ہر شخص قابل قدر ہے۔ روزمرہ کے حالات میں کاؤنٹر اسپیچ کا مطلب امتیازی سلوک کے نشانے پر کھڑا ہونا ہے۔
  • کاؤنٹر اسپیچ کے اسکالر جوشوا گارلینڈ اور ان کے ساتھیوں نے اسے ’’نفرت انگیز مواد کی حوصلہ شکنی کرنے، اسے روکنے، یا متاثر گروہ کو مدد فراہم کرنے کے لیے شہریوں پر مبنی ردِ اظہار کی ایک شکل کے طور پر بیان کیا ہے، مثلاً، نفرت انگیز تبصرے میں منطقی خامیوں کی نشان دہی کرکے یا غلط اطلاع کا مقابلہ کرنے کے لیے حقائق کا استعمال کرنا۔‘‘

اگرچہ یہ تعریفیں مختلف ہیں، لیکن یہ سبھی کاؤنٹر اسپیچ کو نفرت انگیز گفتار کے ردِ اظہار کے طور پر بیان کرتی ہیں، جس کا مقصد اس کی ضرر رسانی کو کم کرنا ہے۔ تعریفوں کے درمیان تغیرات بھی اہم ہیں۔ مثال کے طور پر، اسکالر اور ماہرین اس بارے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ آیا کاؤنٹر اسپیچ ہمیشہ سول (شائستہ)ہوتی ہے۔ بعض کا خیال ہے، مثلاًمینر ہیم لیگ فار چائلڈ ویلفیئر ، کہ یہ ’’انسانی، ہمدردانہ اظہار‘‘ہے، لیکن زیادہ تر تعریفوں میں اس طرح کی قابلیت شامل نہیں ہے۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ تعریفیں تنگ ہیں (جسے اصل گفتار اور رد اظہارکے درمیان کچھ ربط کی ضرورت ہو) یا وسیع (کاؤنٹر اسپیچ اور جوابی گفتار/ متبادل گفتار کے زمرے کو ایک ساتھ جوڑنا)۔

قابل اعتراض گفتار کا جواب دینا کوئی نئی بات نہیں ہے—لوگ طویل عرصے سے کسی نہ کسی طرح سے ان تبصروں سے اختلاف کا اظہار کرتے رہے ہیں جو انھیں ضرر رساں لگتے ہیں۔ لیکن نفرت کے جواب کے طور پر کاؤنٹر اسپیچ کا تصور نسبتاً حالیہ ہے۔

اصطلاح ’’کاؤنٹر اسپیچ‘‘کم از کم 1800 کی دہائی کے اوائل میں پرنٹ میں نمودار ہوئی تھی، حالاں کہ ابتدائی تمام معاملات میں، اس اصطلاح کا مطلب صرف کسی بھی گفتار کی تردید کرنا تھا (ضروری نہیں کہ وہ نفرت انگیز یا ضرر رساں متن ہو)۔ مثال کے طور پر:

  • ’’گفتار اور کاؤنٹر اسپیچ ایک دوسرے میں فٹ نہیں ہوئے ۔ مقررین ایک دوسرے کے سروں کے اوپر سے بات کر رہے تھے‘‘ (1918 میں دی انڈیپینڈنٹ جلد 95 میں لکھا گیا، جو 1848 اور 1928 کے درمیان نیو یارک شہر سے شائع ہونے والا ہفتہ وار میگزین تھا۔)
  • ’’کیوں کہ ان میں سے پہلا بیان محبت کے بارے میں تین بیانات پر مشتمل ہے، ایک لیسیاس کا اس موقف کے حق میں ہے کہ ایک لڑکے کو پرجوش اور مخلص عاشق کے بجائے کسی ٹھنڈے اور دل چسپی نہ لینے والے عاشق کو ترجیح دینی چاہیے، اور دوسرا بیان سقراط کا ہے- پہلا ایک ضمنی بیان، اسی معنی میں جس طرح انصاف کی عدالتوں میں اس طرح کے بیانات کے مقصد کا دفاع کرنے کے لیے عام تھے۔ اس کے برعکس، دوسرا، اس جذباتی مدعی کے حق میں کاؤنٹر اسپیچ ہوا جس پر پہلے معاملے میں اتنے سنگین الزام لگائے گئے تھے۔ (مقتبس شلیئرماکر کی ’مکالمات افلاطون کا تعارف‘ سے۔ کاؤنٹر اسپیچ کا معاصر تصور بہت حالیہ ہے، اور جیسا کہ ذیل کے خاکے میں دکھایا گیا ہے، یہ اصطلاح حالیہ برسوں میں بہت زیادہ عام ہوگئی ہے۔

گوگل بکس اینگرام ویوئر سے اعداد و شمار – 1820 سے 2019 تک انگریزی زبان کی کتابوں میں اصطلاحات کا استعمال

ریاستہائے متحدہ میں، کاؤنٹر اسپیچ کا تصور اکثر امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس لوئ ڈی برانڈیس سے ملتا ہے، جنھوں نے 1927 کی ایک مشہور رائے میں لکھا تھا کہ ضرر رساں اسپیچ کا جواب دینا، اسے سنسر نہ کرنا، ہی بہترین جواب ہے۔ اگرچہ وہ کیلیفورنیا کی ایک خاتون کی سزا کو برقرار رکھنے میں باقی عدالت کے ساتھ شامل ہو گئے تھے جس نے کمیونسٹ لیبر پارٹی آف امریکہ کے قیام میں مدد کی تھی، برانڈیس نے اعلان کیا:

’’اگر بحث کے ذریعے جھوٹ اور غلط فہمیوں کو بے نقاب کرنے کا وقت ہو، تعلیم کے عمل کے ذریعے برائی سے بچنے کے لیے، تو اس کا علاج زیادہ اسپیچ ہے، جبری خاموشی نہیں۔ “

امریکی وکلا اکثر اسے کاؤنٹر اسپیچ کا نظریہ کہتے ہیں، حالاں کہ برانڈیس نے کبھی بھی اس اصطلاح کا استعمال نہیں کیا۔ اس اور دیگر متعلقہ خیالات کی بنیاد پر، سپریم کورٹ نے امریکی آئین کی آزادی اظہار کی شق کی بہت وسیع پیمانے پر تشریح کی ہے، جس سے یہ دنیا کا سب سے اظہار کی حفاظت کرنے والا قومی قانون بن گیا ہے

3.۔ جوابی بیانیہ کیا ہے؟

جوابی بیانیہ وہ نقطہ نظر یا کہانی ہے جو کسی خاص موضوع، مسئلے یا واقعہ کے کسی دوسرے نقطہ نظر کو چیلنج کرے یا اس کی مخالفت کرے۔ یہ تاریخی واقعات، سماجی مسائل، ثقافتی اصولوں، یا سیاسی نظریات کی کوئی متبادل تشریح، تجزیہ، یا تفہیم پیش کرتا ہے۔

جوابی بیانیے اکثر پسماندہ گروہوں یا افراد کے ذریعے تیار کیے جاتے ہیں جو ان مروجہ خیالات یا عقائد کو چیلنج کرتے ہیں جو دقیانوسی تصورات، جبر یا اخراج کی حمایت کرتے ہوں۔ ان کا مقصد ان لوگوں کو آواز فراہم کرنا ہے جو اکثر مرکزی دھارے کے بیانیے میں نہیں سنے جاتے یا غلط طریقے سے پیش کیے جاتے ہیں۔ انتہا پسندی کو چیلنج کرنے کے لیے جوابی بیانیہ مہمات کو بھی اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔

بعض اوقات مہمات این جی اوز یا حکومتوں کے ذریعے تیار کی جاتی ہیں، اور وہ مختصر ویڈیوز، اشتہارات، یا یہاں تک کہ ویڈیو گیمز کی شکل اختیار کرتی ہیں جو ہدف سامعین کے اندر وائرل ہونے کے لیے ڈیزائن کی جاتی ہیں۔ امریکہ میں مقیم ایک صومالی تارک وطن کے بارے میں اینیمیٹڈ ویڈیوز کی ایک سیریز، ایوریج محمد، جو اسی نام سے ایک این جی او کے ذریعے تیار کی گئی ہے، اس طرح کی جوابی کوششوں کی ایک اچھی مثال ہے۔ یہ عنوان ان ویڈیوز کے مرکزی کردار کا بھی نام ہے، جو داعش جیسے انتہا پسند گروہوں کے ذریعے مسلم نوجوانوں کو ورغلانے اور بھرتی کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے پروپیگنڈے کو چیلنج کرتا ہے۔

دیگر جوابی گفتاریوں کو نچلی سطح کی مہمات کے ذریعے شیئر کیا جاتا ہے، اکثر سوشل میڈیا پر ایک عام ہیش ٹیگ کے ارد گرد۔ اس قسم کے ردِ اظہار کی ایک مثال #MyFriend مہم ہے، جس کا آغاز 2015 میں برمی کارکن اور سابق سیاسی قیدی وائی وائی نو نے کیا تھا۔ میانمار میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے خطرناک گفتار، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، اسکالروں اور انسانی حقوق کے ماہرین کی توجہ حاصل کر چکے ہیں، اور 2018 میں، اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا نے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی مہم میں ’’فیصلہ کن کردار‘‘ ادا کیا ہے جس میں میانمار کی فوج نے 10،000 سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کردیا۔

#myfriend مہم نے برمی عوام کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ مختلف مذاہب اور نسلوں کے دوستوں کے ساتھ سیلفیاں #myfriend اور #friendshiphasnoboundaries ہیش ٹیگ کے ساتھ پوسٹ کریں جس کا مقصد میانمار میں ’’مذہب، نسل، قومیت، رنگ اور جنس کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیاز، نفرت، نفرت انگیز بیانات اور انتہا پسند نسل پرستی‘‘ کو کم کرنا اور گروہوں کے درمیان ’’محبت اور دوستی‘‘ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اس دوران میانمار میں حکومت کے خلاف براہ راست بولنے کا مطلب جیل یا اس سے بھی بدتر خطرہ تھا۔ #myfriend مہم ان پیغامات کو واضح طور پر مسترد کرتی تھی جو یہ کہتے تھے کہ روہنگیا مسلمان میانمار اور اس کی بودھی اکثریت کے لیے خطرہ ہیں۔

4 شراکت دار؟

فری اسپیچ پروجیکٹ کا مستقبل

دی فیوچر آف فری اسپیچ پروجیکٹ (FFS) کا آغاز 2020 میں ڈنمارک کے تھنک ٹینک Justitia نے کیا تھا اور 2023 سے، Justitia اور Vanderbilt University کے درمیان  ایک تعاون ہے۔

اظہار رائے کی آزادی کی قدر

اظہار رائے کی آزادی آزادی کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر کوئی آزاد اور جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا یا پروان نہیں چڑھ سکتا۔ اظہار رائے کی آزادی بے مثال سائنسی، سماجی اور سیاسی ترقی کی بنیاد رہی ہے جس نے افراد، برادریوں، قوموں اور خود انسانیت کو فائدہ پہنچایا ہے۔ لاکھوں لوگ اقتدار کو چیلنج کرنے، قدامت پسندی پر سوال اٹھانے، بدعنوانی کو بے نقاب کرنے اور ظلم، تعصب اور نفرت سے نمٹنے کے حق سے تحفظ، علم اور بنیادی معنویت حاصل کرتے ہیں۔

فری اسپیچ پروجیکٹ  (ایف ایف ایس ) میں ہمارا ماننا ہے کہ آزادی اظہار کا مضبوط اور لچک دار کلچر کسی بھی آزاد، جمہوری معاشرے کے مستقبل کی بنیاد ہونا چاہیے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اگرچہ تیز رفتار تکنیکی تبدیلیاں نئے چیلنج اور خطرات لے کر آتی ہیں، تاہم آزادی اظہار نسل، مذہب، قومیت، جنسی رجحان، صنف یا سماجی حیثیت سے قطع نظر تمام لوگوں کے لیے لازمی مثالی اور بنیادی حق رہناچاہیے۔

عالمی آزادی اظہار کا زوال

آزادی اظہار ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے عالمی سطح پر زوال کا شکار ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے اس زوال سے انفرادی آزادی، سول سوسائٹی اور جمہوری اداروں کے ساتھ ساتھ سائنس اور فلسفے کی ترقی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ آزادی اظہار میں عالمی سطح پر زوال کی بہت سی وجوہ ہیں جن میں تمام براعظموں میں مطلق العنانیت کا عروج بھی شامل ہے۔ یہاں تک کہ کھلے معاشروں میں بھی آن لائن گفتار کی جمہوریت اور وائرل ہونے کی خصوصیت کو اچھی طرح چلنے والے، آزاد، روادار اور تکثیری معاشروں کے لیے پیشگی شرط کے بجائے خطرے کے طور پر دیکھا جارہاہے۔ نفرت انگیز گفتار، انتہا پسندی، دہشت گردی اور غلط اطلاع سے حقیقی اور تصوراتی دونوں طرح کے خطرات نے آمرانہ اور جمہوری حکومتوں، سوشل میڈیا کمپنیوں، افراد اور این جی اوز کے ذریعے اظہار رائے کو سخت ضابطے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف ایک مثال کے طور پر، حالیہ کورونا وائرس نے نہ صرف عالمی سطح پر صحت عامہ کی ہنگامی صورت حال پیدا کردی تھی بلکہ عالمی سینسرشپ کی وبا کو بھی جنم دیا ہے، جہاں بہت سی حکومتیں غلط اطلاع کو دبانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، وہیں بعض حکومتوں نے اس موقع کو پریس اور آن لائن اظہار رائے دونوں کو مزید کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات آزادی اظہار کی قدر اور حق دونوں کو ہی دباؤ میں نہیں ڈالتے بلکہ آزادی اظہار کے محافظوں کو بھی چیلنج کرتے ہیں کہ وہ آزادی اظہار کی اہمیت کے بارے میں دلائل کا ازسرنو جائزہ لیں، اپ ڈیٹ رکھیں اور خود کو اپ گریڈ کریں۔ آزادی اظہار کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے تاریخی اسباق بہت اہم ہیں، لیکن ڈیجیٹل دور میں، جہاں پروپیگنڈا اور غلط اطلاع سیکنڈوں میں دنیا بھر کا سفر کر سکتی ہیں، اب صرف پچھلے زمانے کے آزمودہ اور مجرب آزادی اظہار کے دلائل پر انحصار کرنا کافی نہیں ہے۔

ہم کیا کرتے ہیں

اظہار رائے کی آزادی کے زوال کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، ایف ایف ایس تین بڑے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتا ہے: اظہار رائے کی آزادی عالمی سطح پر زوال پذیر کیوں ہے؟ ہم آزادی اظہار کے فوائد اور نقصانات کو بہتر طریقے سے کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اور ہم اظہار رائے کی آزادی کا لچک دار عالمی کلچر کیسے تشکیل دے سکتے ہیں جس سے ہر کسی کو فائدہ ہو؟ اس کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ ہمیں اظہار رائے کی آزادی کی ضرورت کیوں ہے اور اس بات کی بہتر وضاحت کرنا ہے کہ بولنے کی آزادی اتنی بنیادی کیوں ہے۔ ہم اس بات کا بھی جائزہ لیں گے کہ غلط اطلاع، انتہا پسندی اور نفرت انگیز گفتار سے متعلق جائز خدشات کو دور کرتے ہوئے ہم اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں۔

ایسا کرنے کے لیے، ہماری کوشش سہ رخی ہوگی: (1) رائے شماری اور تحقیق کے ذریعے، ہم آزادی اظہار کے بارے میں عالمی رویوں کی پیمائش کریں گے اور تجزیہ کریں گے کہ کیا آزادی اظہار کی پابندیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال ہونے والے عام خدشات اور دلائل حقیقی یا تصوراتی نقصانات پر مبنی ہیں۔ (2) آزادی اظہار کے عالمی آمرانہ زوال کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری موجودہ معیارات کے دفاع اور استحکام کے ذریعے۔ (3) آؤٹ ریچ کے ذریعے، ایف ایف ایس کارکنوں، پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈروں کو ڈیٹا، دلائل اور معیارات فراہم کرنا تاکہ ایف ایف ایس کو آزادی اظہار کی گراوٹ کا رخ موڑنے میں مدد مل سکے۔

بہرکیف، ایف ایف ایس کا مقصد علم پیدا کرنا اور کارکنوں کو متحرک کرنا، شکوک و شبہات کو قائل کرنا، مطلق العنانوں کی مزاحمت کرنا اور اظہار رائے کے لچک دار عالمی کلچر کو فروغ دینا ہے۔

ڈینجرس اسپیچ پروجیکٹ

ڈینجرس اسپیچ پروجیکٹ ایک غیر جانب دار، غیر منافع بخش تحقیقی ٹیم ہے جو خطرناک گفتار کا مطالعہ کرتی ہے، یعنی ابلاغ کی کوئی بھی شکل جو اس خطرے کو بڑھا سکتی ہے کہ لوگوں کا کوئی گروہ پرتشدد طور پر دوسرے گروہ کے خلاف ہو جائے ۔ ہم آزادی اظہار کا تحفظ کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کے بہترین طریقے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم کسی یونیورسٹی یا کسی اور ادارے کا حصہ نہیں ہیں۔

ہمارا مشن

ہم ایک ایسی دنیا کا تصور کرتے ہیں جو خطرناک گفتار سے پیدا ہونے والے تشدد سے پاک ہو، جس میں لوگ اظہار رائے کی آزادی سے بھی پوری طرح لطف اندوز ہوں۔ ہم تحقیق، تعلیم اور پالیسی کے کام کے ذریعے لوگوں کو خطرناک گفتار اور اس سے پیدا ہونے والے تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔

ہم کیا کرتے ہیں

ڈی ایس پی بنیادی طور پر پانچ میدانوں میں کام کرتا ہے:

  1. .   خطرناک گفتار اور اس کے نقصانات کے بارے میں مفید خیالات کا مطالعہ اور ترقی

ہم دنیا بھر سے خطرناک گفتار کی تاریخی اور موجودہ مثالوں کو جمع کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں، تاکہ گفتار اور تشدد کے درمیان تعلق کو بہتر طور پر سمجھا جاسکے۔ اس تحقیق کی بنیاد پر، ہم نے  آن لائن اور آف لائن خطرناک گفتار کی شناخت اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تفصیلی عملی گائیڈ لکھی ہے۔ ہمارا ’عام طور ہر پوچھے جانے والے سوالات‘بھی فوری بصیرت فراہم کرتے ہیں۔

اپنے فیلوشپ پروگرام کے ذریعے، ہم نے بہت سے ممالک میں محققین سے خطرناک گفتار کے تفصیلی کیس اسٹڈیز اور ڈیٹا سیٹ حاصل کیے ہیں، کیوں کہ اس طرح کا تجزیہ ان لوگوں کے ذریعے سب سے اچھے انداز میں کیا جاتا ہے جو متعلقہ زبانوں اور ثقافتوں پر عبور رکھتے ہیں۔

  1.    نفرت انگیز گفتار سمیت خطرناک اور دیگر ضرر رساں گفتار کے ردِ اظہار کی تحقیق اور جائزہ

خطرناک گفتار اور ضرر رساں گفتار کی دیگر شکلوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے، ہم مختلف طریقوں کا مطالعہ کرتے ہیں، ان میں سے بہت سے تخلیقی اور متضاد ہیں، جو لوگوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اس طرح کے گفتار کا تعمیری طریقوں سے جواب دینے کے لیے تیار کیے ہیں ، اس میں کاؤنٹر اسپیچ بھی شامل ہے۔ ہم نے ان میں سے بہت سے اچھے طریقوں کو پہلی بار نجی اور عوامی طور پر یکجا کیا ہے، جس سے ہماری تحقیق اور مجموعی کام دونوں نے روشنی پائی ہے۔

  1.    اہم برادریوں کے ذریعے استعمال کے لیے خطرناک گفتار کے خیالات کو اپنانا، تشکیل دینا اور پھیلانا۔

جتنا ہم کر سکتے ہیں، ہم اپنے خیالات کو ان لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو انھیں خطرناک گفتار کا مطالعہ کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ہماری اشاعتوں کو وسیع پیمانے پر قابل رسائی بنانے کے علاوہ، ہم کارکنوں،  اساتذہ، وکلا، محققین، طلبہ اور ٹیک کمپنی کے عملے سمیت مختلف گروہوں کے لیے ٹریننگ اور ورکشاپس بھی منعقد کرتے ہیں۔ ان اور دیگر کوششوں کے نتیجے میں، ہمارے کام کو نائجیریا، سری لنکا، ڈنمارک، ہنگری، کینیا، پاکستان اور ریاستہائے متحدہ جیسے مختلف ممالک میں خطرناک گفتار کا مطالعہ اور / یا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

  1.     اسپیچ گورننس کے بارے میں فیصلہ سازوں کو مشورہ دینا اور تنقید کرنا

ان طریقوں کے ماہرین کی حیثیت سے جن میں گفتار تشدد کو جنم دیتا ہے، ہم اپنی تحقیق کا استعمال ٹیک انڈسٹری کو مشورہ دینے کے لیے کرتے ہیں کہ کس طرح ضرر رساں گفتگو کی پیش قیاسی، اثرات کم کرنے اور جواب دینے کے طریقوں سے تشدد کو روکا جائے جب کہ اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ بھی کیا جائے۔

ہم متعدد ٹیک کمپنیوں کو ان کی مواد کی پالیسیوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں، جس سے ہماری تحقیق نفرت انگیز گفتار، خواتین کے خلاف تشدد، حکومت کی ٹرول فوجوں، انتخابات کے دوران مواد کو منضبط کیے جانے، اور اہم بین گروہی تشدد کے خطرے والے ممالک میں اشتعال انگیز گفتار کے بارے میں سوالات کے جوابات دینے میں استعمال کی جاتی ہے۔

  1.    آن لائن مواد کا مطالعہ کرنے کے لیے محققین کی صلاحیت سازی کو فروغ دینا اور اس کی حفاظت کرنا

ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ کمپنیوں کو اپنے پلیٹ فارمز پر ضرر رساں رویے کو کم کرنے کے طریقوں پر تحقیق کرنے کے لیے بیرونی تعاون کرنا چاہیے—اور شفاف طریقے سے نتائج شائع کرنا چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے، ہم کوالیشن فار انڈیپینڈنٹ ٹیکنالوجی ریسرچ کے بانی ارکان ہیں، جو کمپنیوں کو عوامی مفاد کی تحقیق کے لیے اپنے ڈیٹا کا اشتراک کرنے، ان محققین کی حفاظت کرنے کے لیے ذمہ دار بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں جو آزادانہ طور پر کمپنیوں سے ڈیٹا جمع کرتے ہیں، اور اخلاقی، رازداری کے تحفظ کے عوامی مفاد کی تحقیق کے لیے بہترین طریقوں کو قائم کرتے ہیں۔

5.۔ پروجیکٹ کا پس منظر

ایف ایف ایس کے پہلے مرحلے (2020-2023) نے ’’آزادی اظہار کی گراوٹ‘‘ کی تحقیقات اور اسے تبدیل کرنے اور آزادی اظہار کے لچک دار کلچر کی سمت میں کام کرنے کی کوشش کی۔ اس منصوبے نے تحقیق اور وکالت کی سرگرمیوں کے ذریعے اپنے مقاصد کو پورا کیا، سوشل میڈیا کمپنیوں، ریاستوں، بین الاقوامی اداروں اور سول سوسائٹی جیسے اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ کام کیا۔ ایف ایف ایس اس کساد کی ممکنہ وجوہات کی تحقیقات کرنا چاہتا تھا، جسے اکثر آمرانہ عوامیت پسندی (پوپلزم)اور اختلاف رائے، سول سوسائٹی کی شرکت اور آزاد پریس کے خلاف کریک ڈاؤن سے منسوب کیا جاتا ہے۔

ایف ایف ایس (2023-2026) کا دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے کے نتائج پر مبنی ہے اور ایسا فریم ورک تشکیل دینے کی کوشش کرتا ہے جس کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو فروغ دیا جائے اور اسے ایسے راستے کے طور پر اپنایا جائے جس کے ذریعے منفی آن لائن مظاہر کو روکا جائے۔ یوں بہترین اداروں اور تنظیموں کے تعاون سے، ہم نفرت، غلط اطلاع اور پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے گفتار کی حفاظتی تدابیر(ڈیجیٹل اور اینالاگ) ڈیولپ کر رہے ہیں۔ لہذا، اس حقیقت سے توجہ ہٹانے کے بجائے کہ انتہا پسندانہ گفتار سنگین نقصان کا باعث بن سکتی ہے، ایف ایف ایس غیر محدود طریقوں کی تلاش اور فروغ پر توجہ مرکوز کرتا ہے تاکہ اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کو ڈیجیٹل دور میں نفرت، غلط اطلاع اور آمرانہ پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ ایف ایف ایس نے جو تجاویز پیش کی ہیں ان میں سے ایک موجودہ ٹول کٹ ہے جس کا مقصد انٹرنیٹ صارفین، آن لائن کارکنوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو ایک مرکزی میکنزم کے طور پر کاؤنٹر اسپیچ کا استعمال کرنے کے لیے بااختیار بنانا ہے جس کے ذریعے خیالات اور آراکے آن لائن مرکزسے آنے والے نقصانات سے نمٹا جاتا ہے۔ اس تناظر میں، اس نے ڈی ایس پی کے ساتھ ساجھیداری کی ہے جنھوں نے اپنی مہارت اور تجربے کے ذریعے، اس ٹول کٹ کا مواد ڈیولپ کیا ہے ، امید ہے کہ یہ صارفین کو بہتر طور پر سمجھنے اور کاؤنٹر اسپیچ کا استعمال کرنے کے لیے بااختیار بنائے گا اور ترغیب دے گا۔

مزید برآں، وینڈربلٹ ڈیٹا سائنس انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے، ایف ایف ایس مصنوعی ذہانت پر مبنی ایپلی کیشن ڈیولپ کر رہا ہے جو صارفین کو کاؤنٹر اسپیچ کے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن نفرت انگیز گفتار کا فوری جواب دینے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ یہ ایپلی کیشن، جو چیٹ جی پی ٹی جیسے بڑے لینگویج ماڈلز (ایل ایل ایم) سے چلتی ہے، صارفین کو آن لائن نظر آنے والی قابل اعتراض پوسٹ اپ لوڈ کرنے اور صارف کے اپنے انداز میں پوسٹ کا جوابی رد اظہار جنریٹ کرنے کی اجازت دے گی۔ ایپلی کیشن کو ترتیب دینے اور پرسنلائز کرنے کے لیے، ایپ صارف سے معلومات لیتی ہے جیسے صارف کی اقدار اور تحریری نمونے کے ساتھ ساتھ نفرت انگیز گفتار کا جواب دینے کے لیے حکمت عملی پر مشتمل دستاویزات کا کسٹمائزیبل مجموعہ۔ مزید برآں، ایپلی کیشن کو نفرت انگیز گفتار کے سیاق و سباق کے ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل ہوگی، جیسے انتہا پسند گروہوں کے ذریعے استعمال ہونے والے مخففات اور الفاظ، جو بہ صورت دیگر مواد کے ابتدائی سیاق میں غیر موجودہوسکتے ہیں۔ صارف کی ترجیحات کے اس ابتدائی سیٹ اپ کے بعد، صارف کوئی قابل اعتراض پوسٹ سبمٹ کرسکتا ہے اور ایپلی کیشن اس پوسٹ کے جواب کا مسودہ تیار کرے گی۔

اس کا مقصد کاؤنٹر اسپیچ کو مکمل طور پر خودکار بنانا نہیں ہے، بلکہ مؤثر جوابات کا مسودہ تیار کرنے کے عمل میں صارفین کو آسانی اور مدد فراہم کرنا ہے۔ اس منصوبے سے امید ہے کہ یہ کاؤنٹر اسپیچ صارفین پر بوجھ کو کم کرے گا جو آج آن لائن نفرت انگیز گفتار کی کثرت سے جوجھ رہے ہیں، اور ساتھ ہی اظہار رائے کی آزادی کو بھی برقرار رکھے گا۔

لہذا ہم امید کرتے ہیں کہ ٹول کٹ اور آنے والی ایپ ان لوگوں کے لیے مفید ہوگی جو آن لائن نفرت سے نمٹنے کے لیے کاؤنٹر اسپیچ کا استعمال کرتے ہوئے کام کرنا چاہتے ہیں۔

کاؤنٹر اسپیچ کس مواد کا جواب دیتی ہے؟

کاؤنٹر اسپیکر اپنے انتخاب خود کرتے ہیں کہ کون سا مواد جواب کے قابل ہے، لہذا ان کے فیصلے شخصی اور متنوع ہوتے ہیں۔ کاؤنٹر اسپیکروں کے کچھ گروہ کچھ ممبروں کو ایسے مواد کا انتخاب کرنے کے لیے مقرر کرتے ہیں جس پر باقی لوگ جواب دیتے ہیں۔ تمام صورتوں میں کاؤنٹر اسپیکر خود فیصلہ کرتے ہیں کہ نہ صرف کون سا مواد کی، بلکہ یہ بھی کہ کون سے ذرائع یا مصنفین کا رد کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ کاؤنٹر اسپیکر ریاستی پروپیگنڈے کا رد کرتے ہیں، اگرچہ اس سے بعض اوقات انھیں انتقامی، طاقتور حکومتوں اور / یا ان کے حامیوں کے ذریعے انتقام کا خطرہ لاحق ہوجایا کرتا ہے۔

ڈی ایس پی نے جن کاؤنٹر اسپیکرز کا انٹرویو کیا ہے ، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کون سا مواد تلاش کرتے ہیں، تو ان میں سے زیادہ تر کا کہنا تھا کہ ’نفرت انگیز گفتار‘۔ کاؤنٹر اسپیکر دیگر قسم کے مواد کا بھی جواب دیتے ہیں، کیوں کہ ان کے خیال میں وہ ضرر رساں ہے، بشمول خطرناک گفتار، غلط اطلاع، اور دہشت گردی پر مبنی مواد، جو خود ایک متنوع زمرہ ہے۔ اس قسم کے مواد، جن میں سے تمام ایک دوسرے کے ساتھ مشترک ہوسکتے ہیں، ذیل میں بیان کیے گئے ہیں۔

نفرت انگیز گفتار

یہ انگریزی میں قابل اعتراض مواد کے لیے سب سے عام اصطلاح ہے، اور اس اصطلاح کے تغیرات دوسری زبانوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اگرچہ نفرت انگیز گفتار کے لیے کوئی متفقہ تعریف موجود نہیں ہے، لیکن تمام تعریفیں ایسے مواد کی وضاحت کرتی ہیں جو لوگوں کو انفرادی طور پر نہیں بلکہ اس لیے بدنام کرتی ہیں یا ان پر حملہ کرتی ہیں کیوں کہ وہ کسی قسم کے انسانی گروہ کا حصہ ہیں۔

لہٰذا اگر کوئی بچہ اپنی ماں سے کہے کہ ’میں آپ سے نفرت کرتا ہوں‘ تو یہ نفرت انگیز گفتار نہیں ہے کیوں کہ جذبات کسی گروہ کے رکن کی حیثیت سے نہیں بلکہ خود اور بالذات ماں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ بھی امید کی جاسکتی ہے کہ بچے کا جذبہ نفرت پیدا کرنے کے لیے مضبوط یا پائیدار نہ ہو، حالاں کہ اس بات پر بھی اتفاق رائے نہیں ہے کہ ’’نفرت‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ ’’نفرت انگیز گفتار‘‘ کی بہت شاذ ہی قانون میں کوڈی فکیشن یا وضاحت کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے نفرت انگیز گفتارکے بارے میں اپنی حکمت عملی اور لائحہ عمل میں یہ بہت وسیع تعریف پیش کی ہے، ’’ گفتار، تحریر یا رویے کی شکل میں کسی بھی قسم کی ترسیل ، جو کسی شخص یا گروہ کے حوالے سے توہین آمیز یا امتیازی زبان کا استعمال کرے، دوسرے لفظوں میں، ان کے مذہب کی بنیاد پر، نسل، قومیت، رنگ، جنس یا شناخت کے دیگر عوامل کی بنیاد پر۔‘‘ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون میں نفرت انگیز گفتارکی کوئی تعریف متعین نہیں کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے نوٹ کیا ہے کہ ’’یہ تصور ابھی بھی زیر بحث ہے۔

خطرناک گفتار

خطرناک گفتار اظہار کی ایسی کوئی بھی شکل (بشمول گفتار، متن، یا تصاویر) ہے جو اس خطرے کو بڑھا سکتی ہے کہ اس کے سامعین کسی دوسرے گروہ کے ممبروں کے خلاف تشدد کو روا ٹھہرالیں گے یا اس میں حصہ لیں گے۔ کچھ کاؤنٹر اسپیکر خطرناک گفتار کا رد کرنے کا انتخاب کرتے ہیں کیوں کہ یہ نفرت انگیز گفتار کے مقابلے میں چھوٹا، زیادہ معروضی زمرہ ہے، اور چوں کہ وہ بین گروہی تشدد کو روکنے کی کوشش کرنے کے لیے خاص طور پر اہم نقصان کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مثال کے  طور پر کینیڈا میں کاؤنٹر اسپیکروں کا #wearehere گروہ خطرناک گفتار کی تلاش کرتا اور اس کا جواب دیتا ہے۔

خطرناک گفتار کا خیال اس وقت سامنے آیا جب ڈی ایس پی نے بیان بازی میں حیرت انگیز مماثلت دیکھی جو لیڈر حضرات مکمل طور پر مختلف ممالک، کلچروں اور تاریخی ادوار میں تشدد بھڑکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ خطرناک گفتار میں ان بیان بازی کی ’علامات‘ یا تکراری نمونوں میں سے کسی غیر انسانی، یا دوسرے گروہ کے لوگوں کو کیڑے مکوڑوں، حقیر یا خطرناک جانوروں، بیکٹیریا، یا کینسر سے تشبیہ دینا ہے۔ تاہم صرف بیان بازی گفتار کو خطرناک نہیں بنا سکتی ہے۔ جس سیاق و سباق میں اس کا اظہار کیا جاتا ہے وہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔

غلط اطلاع (مس انفارمیشن) اور تدلیس اطلاع (ڈس انفارمیشن)

یہ دونوں اصطلاحات غلط گفتاری کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ تدلیس اطلاع / ڈس انفارمیشن ان لوگوں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہیں جو اسے غلط جانتے ہیں، اورغلط اطلاع /مس انفارمیشن ان لوگوں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہیں جو غلطی سے اسے سچ سمجھتے ہیں، لہذا ایک ہی مواد تدلیس اطلاع اور غلط اطلاع دونوں ہوسکتا ہے، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اسے پھیلاتا کون ہے۔ بہر صورت یہ اہم، قابل پیمائش نقصان پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی ایک نمایاں حالیہ مثال یہ دعویٰ ہے کہ کووڈ اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ اس کا ویکسین ہے۔ اس طرح کے مواد کے رسپانس میں، بہت سے لوگوں نے ویکسین لگوانے سے انکار کردیا اور ان میں سے کچھ غیر ضروری طور پر اس کے نتیجے میں مر گئے۔ ایک اور مثال فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کرنے سے پہلے روس کا یہ دعویٰ ہے کہ حملے کی ایک بڑی وجہ یہ ہےکہ یوکرین پر نازی حکومت کر رہے تھے۔ اس کے صدر ولادیمیر زیلنسکی یہودی ہیں۔

کاؤنٹر اسپیکر اکثر تدلیس اطلاع اور غلط اطلاع کو مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس کے خلاف تحفظ فراہم کیا جاسکے اور انھیں قائل کیا جائے کہ یہ غلط ہے۔ سویڈش زبان میں سب سے بڑا اجتماعی کاؤنٹر اسپیچ گروہ، #jagärhär یا ’’میں یہاں ہوں‘‘، جس کا آغاز 2016 میں ہوا تھا، اکثر نفرت انگیز غلط اطلاع کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ممبروں کو منظم کرتا ہے۔ ایک معاملے میں، ایک مضمون کے تحت تبصرہ کہ چین میں بندروں کے طاعون کے متعدد مصدقہ کیس سامنے آئے ہیں، چین کو ’’متعدی ملک‘‘ قرار دیتے ہوئے تبصروں سے بھرا ہوا تھا اور ساتھ ہی بہت سے لوگوں نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ یہ چینی لوگوں کی خوراک تھی جو اس بیماری کا سبب بنی۔ اس کے جواب میں #jagärhär کے ارکان نے اس خیال کا رد کرتے ہوئے کہ چینی لوگوں کی خوراک انوکھے طور پر خطرناک ہے، تبصرے لکھے اور طاعون کے بارے میں غلط اطلاع کو تردید کرکے درست اطلاع پیش کی، نیز تھریڈ میں موجود بہت سے تبصروں کو نسل پرستانہ قرار دیا۔

دہشت گردانہ اور متشدد انتہا پسندانہ مواد (ٹی وی ای سی)

دہشت گردانہ اور پرتشدد انتہا پسندانہ مواد (ٹیررسٹ اینڈ وائلنٹ ایکسٹریمسٹ کانٹنٹ—ٹی وی ای سی) ایک اصطلاح ہے جو کچھ حکومتوں اور ٹیک کمپنیوں کے ذریعے ان مختلف اقسام کے مواد کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو دہشت گردی کی تحسین کریں یا اسے فروغ دیں، اور جو لوگوں کو دہشت گردوں کے طور پر بھرتی کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو۔ نیوزی لینڈ کے داخلی امور کے محکمہ  نے ٹی وی ای سی کو ’’نفرت انگیز یا قابل اعتراض (غیر قانونی) مواد کے طور پر بیان کیا ہے جو ضرر رساں انتہا پسندانہ خیالات کو فروغ دیتا ہے جیسے:

  • وہ مضامین، تصاویر، بیانات، یا ویڈیوز جو تشدد کو فروغ دیتے ہیں یا حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
  • دہشت گرد یا انتہا پسند تنظیموں کے ذریعے بنائی گئی ویب سائٹس۔
  • دہشت گردانہ حملوں کی ویڈیوز اور کسی بھی دوسرے مواد کی ویڈیوز جو پرتشدد انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہوں۔

جوابی بیانیہ اکثر اس مواد کو کم زور کرنے کی کوشش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو انتہا پسند گروہ نئے ممبروں کو تیار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، اس طرح کی جوابی بیانیہ مہمات کو آن لائن ٹی وی ای سی کا سامنا کرنے سے پہلے ہی لوگوں تک پہنچنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے، لہذا ان کا بھرتی ہونے کا امکان اتنا نہیں ہوگا۔ ایک مثال ایوریج محمد نامی اینیمیٹڈ جوابی بیانیہ ویڈیوز ہیں، جس کا مرکزی کردار ریاستہائے متحدہ کا ایک صومالی تارک وطن ہے۔ ایک مثال میں ایوریج محمد پوچھتا ہے کہ ’’آپ کے خیال میں جب آپ دعاش میں شامل ہوتے ہیں تو آپ کی ملازمت کی تفصیل کیا ہوتی ہے؟‘‘ پھر وہ اپنے ہی سوال کا جواب دیتا ہے: معصوم لوگوں کو قتل کرنا، ان کا سر قلم کرنا اور دہشت زدہ کرنا، عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات کو تباہ کرنا، اور غیر منتخب شدہ اور ظالم لوگوں کو بااختیار بنانا۔ وہ کہتا ہے ’’یہ بالکل ڈزنی ورلڈ جیسا نہیں ہے۔۔۔ جیسا کہ پروپیگنڈا کہتا ہے، ہے نا؟‘‘

زیادہ تر آن لائن پلیٹ فارمز پر ٹی وی ای سی ممنوع  ہے اور اکثر مختلف عدالتی دائرہ اختیار میں غیر قانونی ہوتا ہے، لہذا کاؤنٹر اسپیچ اور جوابی بیانیہ کی حکمت عملی کی منصوبہ بندی کرتے وقت یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اصل مواد کو کسی وقت حذف کیے جانے کا امکان ہے۔

 

کاؤنٹر اسپیچ کے اہداف

جب لوگ نفرت انگیز گفتار کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس کا جواب دینے کا انتخاب کرتے ہیں تو، ان کے پاس اکثر مختلف محرکات ہوتے ہیں، اور ایک اہم مقصد جو بہت سے دوسرے کاؤنٹر اسپیکروں کے ساتھ مشترک ہے وہ ہے: آن لائن ڈسکورس کو بہتر بنانا۔

بہت سے کاؤنٹر اسپیکروں کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹس اور تبصرے بنیادی طور پر ان لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو نفرت انگیز بیان پڑھتے ہیں – خاموش تماشائی – نہ کہ اسے لکھنے والوں کو۔ کچھ لوگ ’’منقولہ وسط‘‘ میں تماشائیوں کے خیالات کو تبدیل کرنے کی امید کرتے ہیں ، یعنی وہ لوگ جو مخالف خیالات کے حامل لوگوں کے درمیان جذباتی آن لائن مباحثے پڑھتے ہیں، لیکن خود ان موضوعات پر مضبوط اعتقاد نہیں رکھتے ۔ کچھ کاؤنٹر اسپیکر ایسے لوگوں تک پہنچنے کی بھی کوشش کرتے ہیں جو پہلے ہی ان سے متفق ہوں لیکن ابھی تک ان خیالات کو آن لائن ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کر رہے ہوں۔ نئے ہم خیال کاؤنٹر اسپیکروں کو ساتھ لینے سے کاؤنٹر اسپیچ کی مقدار میں اضافہ ہوگا، اور کسی کے خیالات کو تبدیل کیے بغیر ایسا کرنا آسان ہے۔ دوسرے کاؤنٹر اسپیکروں (اور انھی میں سے کچھ) کا ایک اور مقصد ہے: ان لوگوں کی حمایت کرنا جن کی توہین کی گئی ہے یا نفرت انگیز گفتار سے حملہ کیا گیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے، وہ اپنے اہداف پر گفتار کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے کاؤنٹر اسپیکر بھی موجود ہیں جو نفرت انگیز تبصرے پوسٹ کرنے والوں کو باز رہنے کےلیے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں – یا تو انھیں تعلیم دے کر یا سماجی دباؤ کے طریقوں کا استعمال کرکے، جیسے شرمسار کرنا۔ کاؤنٹر اسپیچ کے ساتھ اصل مقرر کے ذہن یا رویے کو تبدیل کرنا سامعین کو متاثر کرنے سے کہیں زیادہ مشکل لگتا ہے، لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔ درحقیقت، آن لائن کاؤنٹر اسپیچ اس میں ڈرامائی طور پر کام یاب رہا ہے۔

ایک عمدہ دستاویزی مثال میگن فیلپس-روپر کی ہے، جن کی پرورش جن کے دادا کے قائم کردہ انتہائی دائیں بازو کے ویسٹ بورو بیپٹسٹ چرچ میں ہوئی تھی۔ پہلے نوجوانی میں، انھوں نے ہم جنس پرستی اور ہم جنس پرستوں کے بارے میں اپنی شدید نفرت کو پھیلانے اور چرچ سے دیگر خطرناک گفتارکو پھیلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، بشمول ایک ٹویٹر اکاؤنٹ کے، جو انھوں نے اس مقصد کے لیے شروع کیا تھا۔ تب، اجنبیوں کی آن لائن کاؤنٹر اسپیچ نے آہستہ آہستہ انھیں اپنے پرجوش اعتقادات پر سوال کرنے پر مجبور کر دیا، یہاں تک کہ انھوں نے ویسٹ بورو چھوڑ دیا، ان کے اہل خانہ نے ان کا بایئکاٹ کر دیا، اور وہ اپنے سابقہ اعتقادات کے خلاف کاؤنٹر اسپیکر بن گئیں۔ فیلپس روپر نے اپنے  تجربات بیان کرتے ہوئے ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس میں اور ٹیڈٹاک میں، وہ کاؤنٹر اسپیچ کے لیے عمدہ خیالات پیش کرتی ہیں۔

میگن فیلپس-روپر کے بارے میں مزید معلومات کے لیے،براہ کرم مثالوں کے حصے کو دیکھیں۔

 

 

کاؤنٹر اسپیچ میں استعمال ہونے والی حکمت عملی

کاؤنٹر اسپیچ بہت سی مختلف شکلیں اختیار کرتی ہے، اور کاؤنٹر اسپیکر مختلف قسم کی ابلاغی حکمت عملیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ذیل میں، بہت سے عام یا دل چسپ حکمت عملیوں کو بیان کیا گیا ہے۔

توسیع

آن لائن ضرر رساں یا قابل اعتراض مواد کے بارے میں لوگوں کا عام طور پر یہ رسپانس یہ احساس ہوتا ہے کہ کہ اس سے چھٹکارہ مل جائے، یہ غائب ہوجائے یا کوئی اور اسے غائب کردے۔ لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ نفرت انگیز یا ضرر رساں مواد کی جانب زیادہ توجہ دلا کر، اسے پھیلا کر یا اسے بڑا کر کے زیادہ نمایاں کرتے ہیں۔ ڈی ایس پی نے اس حکمت عملی کو ’توسیع‘کا نام دیا ہے۔

جو لوگ اپنے جوابات میں توسیع کا استعمال کرتے ہیں وہ اکثر لوگوں کی ایک چھوٹی تعداد کے درمیان بات چیت کرتے ہیں اور انھیں بہت سے لوگوں کو دیکھنے کے لیے بہت بڑے فورم (آن لائن یا آف لائن) میں پوسٹ کرتے ہیں۔ یہ متضاد لگ سکتا ہے: ضرر رساں یا جارحانہ گفتار کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم کیوں بنائیں جب کسی کا حتمی مقصد آن لائن نفرت کی مقدار کو کم کرنا ہے؟

برے مواد کی طرف زیادہ سے زیادہ سامعین کی توجہ مبذول کرانا ایک تعلیمی حربہ ہوسکتا ہے—مثال کے طور پر، مردوں کو اس قسم کی ہراسانی دکھاکر جس کا خواتین کو آن لائن سامنا کرنا پڑتا ہے۔ توسیع لوگوں کو تکلیف دہ، بڑی سچائیوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے جنھیں وہ جانتے تو ہیں لیکن قبول کرنا پسند نہیں کرتے ۔ مثال کے طور پر برازیل کے کاؤنٹر اسپیچ پروجیکٹ ’مررزآف ریسزم ‘ نے سوشل میڈیا سے نسل پرستانہ پوسٹس جمع کیں اور انھیں بل بورڈز پر بڑے حروف میں لکھ دیا۔ ایک سفید فام برازیلی شخص جس کا بل بورڈ کے پاس سے گزرنے کے فوراً بعد انٹرویو کیا گیا تھا، نے کہا کہ اس کے جیسے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا ملک نسل پرست نہیں ہے، لیکن اس بل بورڈ نے دکھادیا کہ یہ بات کتنی غلط ہے۔

دوسرا، جب مواد کا ایک ٹکڑا بڑے سامعین کو پیش کیا جاتا ہے، تو اس بات کا بہت امکان ہے کہ کم از کم ان نئے سامعین کے کچھ ارکان اصل مصنف کی طرح گفتار کے اصولوں کا اشتراک نہیں کریں گے۔ نئے سامعین کاؤنٹر اسپیچ کے ساتھ ردِ اظہار دے سکتے ہیں، جو ان کے اپنے اصولوں کی عکاسی کرتا ہے۔

مررز آف ریسزم کے بارے میں مزید معلومات کے لیے براہ کرم مثالوں کے حصے کو دیکھیں۔

ہمدردی

 

کچھ کاؤنٹر اسپیکر آن لائن ڈسکورس کے لہجے کو تبدیل کرنے کے لیے ہمدردانہ زبان کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ نفرت پھیلانے والوں کو ہمدردی کے ساتھ جواب دیتے ہیں، ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں سننے اور سمجھنے کا احساس دلاتے ہیں۔ اس سے رویے یا یہاں تک کہ عقائد کو تبدیل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک اداکار، مصنف اور آن لائن مواد تخلیق کرنے والے شخص ڈیلن مارون نے ان قارئین تک رسائی حاصل کی جنھوں نے انھیں فاسد اور نفرت انگیز پیغامات بھیجے تھے، اور انھیں فون پر ان سے بات کرنے کی دعوت دی۔ جب ان میں سے کچھ نے قبول کر لیا، تو انھوں نے بات چیت کے دوران ’’بنیاد پرست ہمدردی‘‘ سے کام لیا، اور ان کوششوں کو پوڈ کاسٹ اور ایک کتابی سلسلے میں پیش کیا، جن کانام ہے ’کنورسیشنز ود پیپل ہو ہیٹ می۔‘

کاؤنٹر اسپیکر ان لوگوں تک پہنچنے کے لیے ہمدردانہ زبان کا بھی استعمال کرتے ہیں جو آن لائن مخالفانہ گفتار کا نشانہ بنتے ہیں، اور خاص طور پر آن لائن جگہوں پر شہری گفتگو کے اصولوں کو قائم کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ ہمدردی پر مبنی کاؤنٹر اسپیچ ڈرامائی تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہے، کسی کو صرف میگن فیلپس روپر کے معاملے کو دیکھنا ہوگا جن کے عقائد اور زندگی آن لائن کاؤنٹر اسپیچ کے ذریعے تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ مشغول کچھ کاؤنٹر اسپیکروں کے ہمدردانہ لہجے نے تمام فرق پیدا کر دیا۔ وہ ذاتی سطح پر ان تک پہنچے، موسیقی اور کھانے جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ جیسا کہ فیلپس روپر بیان کرتی ہے:

’’میں ان لوگوں کو جاننے لگی تھی، اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ میں اسی برادری کا حصہ بن رہی ہوں، حالاں کہ ان سے قریبی دوستی نہیں تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ میں شعوری طور پر یہ سوچ رہی تھی کہ ’اوہ، میں ان لوگوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی‘، لیکن یہ یقینی طور پر ایک احساس بن گیا کہ میں اپنا پیغام اس طرح پہنچانا چاہتی ہوں کہ وہ سنیں۔ مجھے اس بات کی پروا ہونے لگی تھی کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔‘‘

فیلپس روپر خود کے اور اسے جواب دینے والوں کے درمیان کمیونٹی کے بڑھتے ہوئے احساس کو کاؤنٹر اسپیچ کی کوششوں کے کام یاب ہونے کی بنیادی وجہ قرار دیتی ہیں۔

میگن فیلپس-روپر کے بارے میں مزید معلومات کے لیے،براہ کرم مثالوں کے حصے کو دیکھیں۔

تعلیم

تعلیمی کاؤنٹر اسپیچ اس وقت واقع ہوتی ہے جب لوگ آن لائن کسی نفرت انگیز یا ضرر رساں پیغام کا براہ راست ردِ اظہار اس طرح کرتے ہیں جس سے اسپیکر یا سامعین کو نئی معلومات فراہم ہوتی ہے بجائے اس کے کہ انھیں شرمندہ کرنے کے لیے ان کے رویے کی تشہیر کریں۔

کاؤنٹر اسپیکرز کے ڈی ایس پی انٹرویوز میں، بہت سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں کو تعلیم دینا (یا تو نفرت پھیلانے والا شخص یا سامعین) ان کا بنیادی مقصد ہے۔ کاؤنٹر اسپیکر نفرت انگیز غلط اطلاع کو درست کرسکتے ہیں، وضاحت کرسکتے ہیں کہ یہ پیغامات نفرت انگیز کیوں ہیں، یا حتی کہ نفرت انگیز گفتار کو اس کے وجود اور مداخلت کی ضرورت کے بارے میں دوسروں کو تعلیم دینے کے طریقہ کار کے طور پر توسیع دے سکتے ہیں۔

اس نقطہ نظر کی ایک نمایاں مثال سویڈن کا #jagärhär (یعنی ’’میں یہاں ہوں‘‘) اور ایک درجن سے زیادہ دوسرے ممالک میں اس کے ذیلی کاؤنٹر اسپیچ گروہ ہیں۔ سویڈش صحافی مینا ڈینٹ نے 2016 میں #jagärhär کی بنیاد رکھی تھی جب انھوں نے زینوفوبیا اور دیگر نفرت میں اچانک آن لائن اضافہ دیکھا، اس کا جواب دینا شروع کیا اور پھر مدد کے لیے دوسروں کو ابھارا۔ انھوں نے ابتدائی دنوں کے بارے میں بتایا: ’’میں ان لوگوں سے بات کرتی تھی جو نفرت انگیز بلاگروں اور جعلی میڈیا سائٹس کو فالو کرتے تھے اور ان سے سوالات پوچھتے تھے، اور انھیں حقائق پر مبنی معلومات کے لنک دیتے تھے تاکہ ’ہم اور ان‘ کے بیانیے کو روکا جا سکے اور ان لوگوں کی مدد کی جا سکے جو جھوٹ پر یقین رکھتے تھے اور تارکین وطن، مسلمانوں اور خواتین کے تئیں متنفر کرنے کے لیے مغالطے میں مبتلا کیے گئے تھے اور ان سے واقعی خائف تھے ۔ میں نے یہ گروہ اپنے دوستوں سے مدد حاصل کرنے کے لیے شروع کیا تھا تاکہ لوگوں کو ان کے خوف اور نفرت سے چھٹکارے میں مدد مل سکے۔‘‘

#iamhere کے بارے میں مزید معلومات کے لیے براہ کرم مثالوں کے حصے کو دیکھیں۔

مزاح

کچھ کاؤنٹر اسپیکر مختلف وجوہ کی بنا پر مزاحیہ رسپانس لکھتے ہیں۔ سب سے پہلے، اس سے قارئین ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، کیوں کہ زیادہ تر لوگ مزاح پسند کرتے ہیں۔ یہ کاؤنٹر اسپیکروں کے لیے بھی راحت کی بات ہے، خاص طور پر جب وہ خود پر حملوں کا جواب دے رہے ہوں۔ جرمن صحافی حسنین کاظم جن کے والدین پاکستان سے ہجرت کر کے جرمنی آئے تھے، بچپن سے ہی ان کے نام اور جلد کی رنگت کی وجہ سے ان پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ نفرت انگیز ای میلز پر ان کے مزاحیہ رسپانس ان کے لیے ایک طرح کا مقابلہ کرنے کا طریقہ تھا، جس نے درد کو تفریح میں بدل دیا۔ جب انھوں نے ان میں سے کچھ کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو اس سے انھیں پرجوش مداح بھی ملے جنھوں نے ان سے اس موضوع پر کتاب لکھنے کی درخواست کی۔ وہ اب تک تین کتابیں لکھ چکے ہیں۔

کاظم نے برسوں سے موصول ہونے والے نفرت انگیز ای میل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’میں اکثر اسے ہنسی مذاق میں لینے کی کوشش کرتا ہوں، بھلے ہی میں ان میلز کو پڑھ کر مجھے ہنسنے کا من نہ کرے۔ مزاح تمام نفرتوں کا مقابلہ کرنے، اسے برداشت کرنے، انھیں انگیز کرنے کا طریقہ ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ مزاح خوف کے خلاف اچھا ہتھیار ہے، اور مزید کہتے ہیں، ’’مثالی طور پر، مزاح نفرت پھیلانے والوں کے خلاف بھی ایک ہتھیار ہے، یعنی جب یہ انھیں مارنے، ان کو بے نقاب کرنے یا کم از کم انھیں سوچنے پر مجبور کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے۔ یہ ہمیشہ کام نہیں کرتا ، لیکن اکثر کافی ہوتا ہے، لہذا اس راستے کو اختیار کرنا مفید ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کبھی نفرت نہ کریں۔ ورنہ آپ شروع سے ہی ہار جائیں گے۔‘‘

2018 میں جرمن کامیڈین جان بوہمرمن کے ذریعے قائم کردہ ایک منظم کاؤنٹر اسپیچ گروہ ریکونکوئسٹا انٹرنیٹ (آر آئی) کے ارکان بھی اکثر مزاح کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ گروہ ایک اور گروہ ریکونکوئسٹا جرمینیکا (آر جی) کے ذریعے پھیلائی جانے والی نفرت انگیز گفتار کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، جو ایک انتہائی منظم نفرت انگیز گروہ ہے جس کا مقصد سیاسی مباحثوں میں خلل ڈالنا اور دائیں بازو کی پاپولسٹ، قوم پرست جماعت Alternative für Deutschland (AfD)کو فروغ دینا ہے۔ چوں کہ آر آئی گروہ کے ارکان مخالفین کے ایک مخصوص گروہ پر توجہ مرکوز کرتے تھے، لہذا وہ کبھی کبھی آر آئی کے ممبروں کو ناراض کرنے کے لیے مزاح کا استعمال کرتے تھے۔ آر جی کے ایک رکن نے ہنستے ہوئے کہا، ’’[ہم] ان لوگوں کے لیے انٹرنیٹ کو تباہ کرنا چاہتے تھے جنھوں نے ہمارے لیے اسے تباہ کر دیا۔‘‘ ایک مثال میں، انھوں نے آر جی ممبروں کے ذریعے استعمال کیے جانے والے ڈسکورڈ سرور کو جرمن محاوروں کے ساتھ انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بارے میں کہا ’’کیوں کہ اس سے ہمیں ہنسی آئی۔‘‘

مزاح کسی ایسے شخص کو اپنا ذہن تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے جو نفرت کا اظہار کر رہا ہے، خاص طور پر جب وہ مذاق کا نشانہ بن رہا ہو، لیکن یہ اکثر توجہ حاصل کرسکتا ہے یا ایسا کرنے والوں کے لیے کاؤنٹر اسپیچ کا مذاق بنا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں لوگ وقت کے ساتھ ساتھ کاؤنٹر اسپیک کرنے کے لیے زیادہ تیار ہوسکتے ہیں۔

حسنین قازم اور ریکونسٹا انٹرنیٹ کے بارے میں    مزید معلومات کے لیے  براہ کرم مثالوں کے حصے کو دیکھیں۔

شرمسار کرنا

آن لائن شرمسار کرنا عام طور پر آن لائن اور آف لائن گفتار یا دیگر رویے دونوں کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ ہمیشہ ایک گروہ کے اصولوں اور کسی اور کے رویے کے مابین اختلاف کو اجاگر کرتا ہے۔ شرمسار کرنا کسی کا مذاق اڑاناہے، اکثر کسی بڑے عوامی فورم پر، اور دوسروں کے لیے ایک انتباہ کے طور پر کام کرتا ہے کہ جب کوئی گروہ کے اصولوں کو توڑتا ہے تو کیا ہوسکتا ہے۔

آن لائن شرمسار کرنے کی ایک ابتدائی، مشہور مثال جسٹن سیکو کا معاملہ ہے، جیسا کہ صحافی جون رونسن نے اپنی کتاب ’سو یو ہیو بین پبلک شیمڈ’ (2015) میں بیان کیا ہے، 2013 میں تعلقات عامہ کے ایک ایگزیکٹو سیکو نے طویل سفر پر جانے والے متعدد ممالک کے لوگوں کے بارے میں توہین آمیز تبصرے ٹویٹ کیے تھے، جن سے مراد تھی کہ انگریزوں کے دانت خراب ہوتے ہیں، اور کم از کم ایک جرمن کے پاس ڈیوڈرنٹ کی کمی ہے۔ اس کے بعد کیپ ٹاؤن کے لیے ایک لمبی پرواز میں سوار ہونے سے قبل سیکو نے ٹویٹ کیا کہ ’افریقہ جا رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ مجھے ایڈز نہیں ہوگا۔ مذاق کر رہی ہوں۔ میں سفید فام ہوں!‘‘

جب تک وہ اتری ، ہزاروں لوگوں نے ان کے ٹویٹ پر غصے کا اظہار کردیا تھا، اور وہ ٹویٹر پر دنیا بھر میں ٹرینڈ کرنے والے نمبر ایک موضوع بن گئی تھی ۔ کچھ لوگوں نے اس کی (شاید دانستہ) غلطی کو درست کرتے ہوئے نشان دہی کی کہ سفید فام لوگ یقیناً ایڈز کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ ناراضگی تیزی سے اطمینان میں بدل گئی ، جو سیکو کے طیارے کے اترنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے، تاکہ وہ اسے اپنے زوال کے بارے میں سیکھتے ہوئے دیکھ سکیں۔ ایک صارف نے ٹویٹ کیا کہ ’کرسمس کے موقع پر میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جب @JustineSacco کا طیارہ لینڈ کرے تو اس کا چہرہ دیکھ سکوں اور وہ اپنا ان باکس یا وائس میل چیک کرے۔‘ انھوں نے جنوبی افریقہ میں ایک شخص کو کیپ ٹاؤن ہوائی اڈے پر جانے، سیکو کی تصویر لینے اور اسے ٹویٹر کے گروہ کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے ہائر کیا جو فوری طور پر ہیش ٹیگ #HasJustineLandedYet کے ساتھ تشکیل پا گیا تھا۔ سیکو کو جلد ہی اس کی زندگی پر دیگر اثرات کے علاوہ ملازمت سے بھی نکال دیا گیا ۔ بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی آن لائن شرمسار کیے جانے کے کے بعد نوکری سے نکالا گیا ہے۔

 

عملی غور و فکر

کاؤنٹر اسپیچ میں مشغول ہونے سے پہلے، آپ کو اس میں شامل خطرات کے بارے میں جاننا چاہیے۔ کاؤنٹر اسپیکروں کو بعض اوقات تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان پر حملہ کیا جاتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ یہ خطرات ان لوگوں کے لیے بڑھ جاتے ہیں جو آمرانہ حکومت کے خلاف بولتے ہیں۔ اگر آپ کاؤنٹر اسپیکر بننے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو شروع کرنے سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا طریقہ سیکھنا ضروری ہے۔

پین امریکہ (PEN America)، ایک غیر سرکاری تنظیم جو اظہار رائے، مصنفین اور ادب کی آزادی کا دفاع کرنے کے لیے کام کرتی ہے، نے آن لائن ہراسانی سے نمٹنے کے لیے ’فیلڈ مینوئل‘ کے حصے کے طور پر محفوظ طریقے سے پریکٹس کرنے کے لیے کاؤنٹر اسپیچ کی گائیڈ لائنز تیار کی ہیں۔ یہ گائیڈ سب سے پہلے فزیکل اور ڈیجیٹل سیکورٹی کے لحاظ سے خطرے کا اندازہ لگانے کی سفارش کرتی ہے۔ حفاظت کے خطرات سیاق و سباق پر منحصر ہیں۔ غور کرنے کے لیے کچھ عوامل یہ ہیں: آپ کا مقام، کس کو—اور کس موضوع پر—آپ جواب دے رہے ہیں، اور آپ کی ذاتی معلومات کا کتنا حصہ آن لائن دستیاب ہے۔

آپ اپنے جواب میں جو حکمت عملی استعمال کرتے ہیں وہ بھی آپ کی حفاظت میں مدد کرسکتی ہے۔ دوسروں کے ساتھ مل کر مشغول ہونے سے مدد مل سکتی ہے، کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ تنہا ہدف نہیں ہوں گے، اور اگر آپ پر آن لائن حملہ ہوتا ہے تو دوسرے کاؤنٹر اسپیکر فوری طور پر آپ کی حمایت کرسکتے ہیں۔ کسی فرد کو براہ راست ردِ اظہارسے گریز کرنے سے بھی تنازعات سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے بجائے، ایسی کاؤنٹر اسپیچ پر توجہ مرکوز کریں جو دوسروں کو مثبت طور پر متاثر کرسکیں جو آپ کے تبصرے پڑھ رہے ہوں—یہ وہ لوگ بھی ہیں جن کو آپ کو قائل کرنے کا بہتر موقع ہے۔ آپ دوسروں کے ذریعے لکھی گئی کاؤنٹر اسپیچ کو بھی ’لائک‘ کرسکتے ہیں۔ یہ آپ کے ذاتی ایکسپوژر کو محدود کرتے ہوئے ان کی گفتار کو توسیع دیتا ہے۔

 

 

مثالیں

#iamhere

#iamhere ایک بین الاقوامی اجتماعی کاؤنٹر اسپیچ نیٹ ورک ہے جس کی بنیاد 2016 میں سویڈن میں مینا ڈینرٹ نے رکھی تھی۔ اس کے 150،000 سے زیادہ ارکان ہیں اور یہ 17 ممالک میں فعال ہے۔ ممبران قومی فیس بک گروہوں کے ذریعے اپنی کاؤنٹر اسپیچ لکھنے، پوسٹ کرنے اور توسیع دینے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں، جو فیس بک پر پوسٹ کردہ خبروں پر تبصروں کا جواب دیتا ہے۔ ممبران اپنی کاؤنٹر اسپیچ ڈیولپ کرتے وقت مجموعۂ قواعد پر عمل کرتے ہیں، جس میں قابل احترام رہنااور غیر تضحیک آمیز لہجہ رکھنا اور کبھی بھی تعصب یا افواہیں نہ پھیلانا شامل ہے۔ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے،#iamhere کے ارکان خبروں کے مضامین اور عوامی صفحات پر نفرت انگیز تبصروں کے لیے فیس بک کو کھوجتے ہیں، اور انھیں منتظمین کو بھیجتے ہیں جو تردید کرنے کے لیے پورے گروہ میں سے کچھ کا انتخاب کرتے ہیں۔ مشترکہ کوشش میں، ممبران پھر متعلقہ تھریڈز میں ایک دوسرے کے حقائق پر مبنی تبصرے پوسٹ اور لائک کرتے ہیں۔ فیس بک کے رینکنگ سسٹم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، جو مشغولیت (لائکس اور جوابات) کی بنیاد پر تبصروں کو ترجیح دیتا ہے، وہ اپنے شہری ردِ اظہار کو توسیع دے سکتے ہیں اور دوسروں کے نفرت انگیز یا زینوفوبک تبصروں کو تھریڈز کے نچلے حصے میں ڈال سکتے ہیں جہاں ان کے دیکھنے کا امکان نہیں ہوتا۔

#iamhere کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے تبصروں کو توسیع دینے کی کوشش کرتے ہیں جو منطقی طور پر دلائل پر مبنی، اچھی طرح سے لکھے گئے اور حقائق پر مبنی ہوں، چاہے وہ #iamhere ارکان کے ذریعے لکھے گئے ہوں یا نہیں۔ اس کا مقصد وسیع تر سامعین تک پہنچنا ہے، بشمول وہ لوگ جو اپنے فیس بک فیڈ کے ذریعے یونہی اسکرول کرتے ہیں، اور اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس قبول پذیر گروہ کو اکثر ’’منقولہ وسط‘‘ کہا جاتا ہے اور #iamhere منطقی، حقائق پر مبنی جوابی دلائل کے ساتھ ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ #iamhere کے بہت سے ارکان دوسروں کو یہ بتانے کے لیے بھی کاؤنٹر اسپیک کرتے ہیں کہ وہ نفرت انگیز گفتار کی مخالفت کرنے میں تنہا نہیں ہیں۔ تبصرے کے حصے وسیع پیمانے پر نفرت کا تاثر پیدا کرسکتے ہیں، جو ضروری نہیں کہ اکثریت کی نمائندگی کرے۔ اختلاف رائے کا اشتراک کرکے اور زیادہ تعمیری مکالمے کو فروغ دے کر، وہ دوسروں کو بااختیار بناتے ہیں جو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے خاموش رہتے ہیں اور ساتھی کاؤنٹر اسپیکروں کے طور پر بات چیت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ #iamhere رواداری، تفہیم اور حقائق پر مبنی گفتگو کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے فیس بک کے پلیٹ فارم کی مشترکہ کوششوں اور اسٹریٹجک استعمال پر پھلتا پھولتا ہے۔ اپنے وقف اقدامات کے ذریعے، وہ ایک ایسا ورچوئل ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں نفرت انگیز بیان بازی کا خاتمہ ہوسکے ، اور استدلال اور ہمدردی کی آوازیں غالب ہوں۔

مررز آف ریسزم

برازیل کی مہم مررز آف ریسزم نفرت انگیزی کا جواب دینے کے لیے اسٹریٹجک توسیع کا استعمال کرنے کی حیرت انگیز مثال ہے۔ 2015 میں، صحافی ماریا جولیا کوٹینہو (جنھیں عموماً ان کے عرفی نام ماجو سے جانا جاتا ہے) برازیل کے پرائم ٹائم نیوز شو، Jornal Nacional کے لیے پہلی سیاہ فام موسمیاتی براڈکاسٹر بن گئیں۔اس تاریخ ساز واقعے سے آن لائن نسل پرستی کی لہر پیدا ہوئی، کچھ برازیلیوں نے نہ صرف ماجو کے خلاف، بلکہ دوسرے سیاہ فام برازیلیوں کے خلاف بھی نفرت انگیزی کرنا شروع کردی۔

اس کے جواب میں برازیل کی خواتین کے شہری حقوق کی تنظیم کرولا (Criola)نے اشتہاری فرم ڈبلیو تھری ہاس (W3haus)کے ساتھ مل کر نسل پرستی کے خلاف مہم چھیڑ دی۔ انھوں نے واضح اور غیر مہذب نسل پرستانہ تبصرے جمع کرکے اس مسئلے کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ان جارحانہ بیانات کو بل بورڈز پر بڑے بڑے حروف میں لکھ دیا گیا، جنھیں اسٹریٹجک طور پر برازیل کے پانچ شہروں میں انھی علاقوں میں رکھا گیا جہاں نفرت انگیزی کرنے والے افراد نے یہ تبصرے آن لائن پوسٹ کیے تھے۔ ہر بل بورڈ پر یہ تبصرہ بھی نمایاں طور پر دکھایا گیا تھا، ’’Racismo virtual, consecuencias reales ‘‘ (یعنی ورچوئل نسل پرستی کے حقیقی عواقب)۔

کریولا کی جنرل کوآرڈینیٹر لوسیا زیویئر نے کہا کہ ’’اس مہم کی حکمت عملی یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی نسل پرستی کو انٹرنیٹ سے باہر نکالا جائے اور اسے سڑکوں پر بے نقاب کیا جائے تاکہ (علاقے کی) آبادی ان ورچوئل کارروائیوں سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ ہو سکے۔ مہم کے پیغام اور مواد کو مزید توسیع دینے کے لیے، ڈبلیو 3ہاس نے مہم کے بارے میں برازیل کے عوام کے ساتھ انٹرویو کیے اور اس کی ویڈیوز شیئر کیں۔ ایک ویڈیو میں سڑک پر موجود راہگیروں کے ردعمل دکھائے گئے جب انھویں نے مذکورہ بل بورڈز دیکھے۔ اس ویڈیو میں ایک ادھیڑ عمر سفید فام شخص نے تبصرہ کیا کہ برازیل کے کچھ لوگ نسل پرستی کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہیں، لیکن بل بورڈ نے مؤثر طریقے سے اس اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ایک اور ویڈیو میں ایک نسل پرستانہ پوسٹ کے پیچھے موجود شخص بل بورڈ کے سامنے کھڑا تھا جس پر اس کا اپنا جارحانہ بیان اور دھندلی پروفائل تصویر موجود تھی اور وہ ایک سیاہ فام خاتون سے معافی مانگ رہا تھا۔ اس کے بعد ان ویڈیوز کو آن لائن شائع کیا گیا، جس نے مہم کی رسائی کو ان کمیونٹیز سے، جہاں بل بورڈز تھے کہیں آگے توسیع دی گئی ، اور نسل پرستی کے خلاف پیغام کو وسیع پیمانے پر پھیلایا۔

حسنین کاظم

پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی اور جرمنی میں دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت الٹرنیٹیو فیور ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) کے عروج جیسے موضوعات پر لکھنے والے جرمن صحافی حسنین کاظم کے لیے نفرت انگیز میل موصول ہونا ایک مستقل کرب ہے۔ اگرچہ وہ جرمنی میں پیدا ہوئے اور وہاں کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پلے بڑھے، لیکن لوگ اکثر ان کے پاکستانی نام اور بھوری جلد کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ وہ ایک غیر ملکی ہیں، اور انھیں درشت پیغامات بھیجتے ہیں کہ انھیں جرمن معاملات پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ ان پر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے حملہ کرتے ہیں (جو وہ نہیں ہیں) اور عام طور پر ایسے لوگ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں نفرت انگیز، اکثر پرتشدد تبصرے کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے سوالات پوچھتے ہیں جن کا کاظم جواب دیتے ہیں۔ زیادہ تر کاؤنٹر اسپیکروں کے برعکس جو ہر مواد پر صرف ایک بار جواب دیتے ہیں، کاظم قارئین کے ساتھ کچھ توسیعی مکالموں میں مشغول رہتے ہیں، کبھی کبھی انھیں حجاب پہننے یا اظہار رائے کی آزادی جیسے موضوعات پر تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور کبھی بھی پھبتیاں بھی کستے ہیں۔

سنہ 2016 میں مینا ڈینرٹ کے کاؤنٹر اسپیکنگ گروپ #iamhere کی طرح بڑھتے ہوئے زینوفوبیا کی وجہ سے کاظم نے فیصلہ کیا کہ وہ جتنا ہوسکے نفرت انگیز میل کے جواب دیں گے، جو اکثر مزاحیہ انداز میں ہوں ۔ انھوں نے سینکڑوں پیغامات کا جواب دیا۔ کاظم لکھتے ہیں کہ اگرچہ یہ کام وقت طلب بھی تھا اور حوصلہ شکنی کا باعث بھی ، لیکن انھوں نے سوچا کہ اس طرح کی وحشیانہ اور پرتشدد نفرت انگیزی کا مقابلہ ضروری ہے جو اکثر ان کے خلاف برتی جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جس چیز سے مجھے ڈر لگتا ہے وہ یہ ہے کہ میں جرمن معاشرے میں اس طرح کی نفرت انگیزی کے خلاف مزاحمت میں کمی دیکھ رہا ہوں۔ ایک معاملے میں، ایک قاری نے جس پہچان اس کے ہینڈل ’’Christ2017 ‘‘ تھی، نے کاظم کو لکھا کہ ’’کیا آپ سور کا گوشت کھاتے ہیں، مسٹر کاظم؟‘‘ کاظم نے جواب دیا’’نہیں، میں صرف ہاتھی اور اونٹ کھاتا ہوں۔ ہاتھی اچھی طرح پکا ہوا ہو، اور مجھے اونٹ کا گوشت خون سمیت پسند ہے۔ کرائسٹ 2017 نے کاظم کو لکھا ’’تم جرمن بننا چاہتے ہو، لیکن سور کا گوشت نہیں کھاتے؟‘‘ اس نے کاظم کو ایک اسلامسٹ سور کہہ دیا۔ کاظم نے جواب دیا، ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمام جرمن سور کا گوشت کھاتے ہیں۔ آپ کی وضاحت کے لیے شکریہ، اب مجھے معلوم ہوا کہ سور گوشت کھانا جرمن کلچر کا ضروری جز ہے! اگلی بار جب کسی باربیکیو پر میری ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوگی جو سور کا گوشت نہیں کھاتا تو میں اس پر لعنت بھیجوں گا اور کہوں گا کہ تم بدترین اسلامسٹ یعنی سبزی خور سے بھی بدتر ہو!‘‘ اس کے بعد کرائسٹ 2017 نے اسے دھمکی دی، ’’تم ہمارے ملک میں اسلامسٹ مہمان ہو، چپ رہو گے تو عافیت میں رہوگے!‘‘

کم از کم ایک موقع پر، جب پرتشدد دھمکیاں بھیجنے والے نے ان کے پیشے کی تفصیلات شامل کیں، چاہے بے شرمی سے یا حادثاتی طور پر، تو کاظم نے اس کی اطلاع اپنے ایمپلائر کو دے دی۔ ایسا ہی ایک واقعہ اگست 2020 میں پیش آیا ، جب کاظم کو ایک ای میل کے ذریعے بتایا گیا کہ ’’پہلے اس سے جنسی زیادتی کی جانی چاہیے اور پھر اس کا پیٹ چیر کر اس کی انتڑیوں سے اس کو لٹکایا جانا چاہیے‘‘اور یہ کہ وہ ’’ایک ’گھناؤنا، گندا غیر ملکی طفیلی ‘‘ہے جس نے ’قابل فخر جرمن قوم کے خلاف بولنے‘ کی جسارت کی ہے۔‘‘ لکھنے والا جرمن کمپنی میں سیلز نمائندہ تھا اور اس نے یہ ای میل اپنے کام کے پتے سے بھیجا تھا۔ کاظم نے اس کے ایمپلائر کے رابطے کی تفصیلات تلاش کیں اور ای میل کا مواد کمپنی کے بورڈ کو بھیج دیا اور متنبہ کیا کہ اگر اس کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو اس معاملے کو ’’بہت طول‘‘ دیاجائے گا۔ کچھ دیر بعد کاظم کو اس شخص کے استعفے کی ایک کاپی بھیجی گئی۔ کاظم نے موصول ہونے والی نفرت انگیز میلز کی اپنے جوابات کے ساتھ بہت سی مثالیں جمع کیں اور انھیں 2018 Post von Karlheinz (’’کارلہینز کے خطوط‘‘) نامی کتاب میں وسیع پیمانے پر، فکر انگیز تبصروں کے ساتھ شائع کیا۔ اس کتاب کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس تحریر کے لکھے جانے تک، اس کا انگریزی یا دیگر زبانوں میں ترجمہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے کاظم نے کاؤنٹر اسپیچ سے متعلق دو اور کتابیں شائع کی ہیں جن میں Auf sie mit Gebrüll! … und mit guten Argumenten (گرجتے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑو۔۔۔ اور اچھے دلائل) Mein Kalifat: Ein geheimes Tagebuch, wie ich das Abendland islamisierte und die Deutschen zu besseren Menschen machte (میری خلافت: ایک خفیہ ڈائری کہ میں نے کس طرح مغرب کو اسلامائز کیا اور جرمنوں کو بہتر عوام بنایا)۔

ریکونکوئسٹا انٹرنیٹ

ریکونکوئسٹا انٹرنیٹ (آر آئی) کا آغاز اپریل 2018 کے آخر میں جرمن ٹی وی پرسلنالٹی اور کامیڈین جان بوہمرمن (Jan Böhmermann)نے کیا تھا، جنھوں نے اپنے مشہور طنزیہ نیوز شو ، Neo Magazin Royal کے دوران اس کا اعلان کیا تھا۔ بوہمرمین نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک نجی ڈسکورڈ گروپ کا لنک شیئر کیا، جس نے پہلے تین گھنٹوں کے اندر حیرت انگیز طور پر 8،700 ممبروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

آر آئی اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ اسے ایک مخصوص منبع سے آنے والے مواد کا جواب دینے کے لیے بنایا گیا تھا: ریکونکوئسٹا جرمینیکا (آر جی)، ایک انتہائی منظم نفرت انگیز گروہ۔ آر جی نے سیاسی مباحثوں میں خلل ڈالا اور دائیں بازو کی عوامیت پسند، قوم پرست جماعت آلٹرنیٹو فر ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) کو فروغ دیا۔

آر آئی کا نعرہ ہے Wir sind nicht GEGEN etwas. Wir sind FÜR Liebe und Vernunft und ein friedliches Miteinander (’’ہم کسی بھی چیز کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم محبت اور عقل اور پرامن بقائے باہمی کے حامی ہیں۔‘‘) اس کے باوجود اس کے کچھ ارکان ابتدائی کال ٹو ایکشن پر قائم ہیں، جس میں ایک الگ نعرہ شامل ہے: ’’ہم وہ احمق ہیں جو انٹرنیٹ کے لطف کو ان احمقوں کے لیے خراب کرتے ہیں جو ہمارے لیے انٹرنیٹ کا لطف خراب کرتے ہیں ۔‘‘ ایک رکن نے کہا کہ ان کے لیے آر جی کے ارکان کے لیے لطف خراب کرنے‘ میں کئی طرح کے رسپانس شامل تھے، جن میں آر جی کے ڈسکورڈ چینلز میں گھسنا اور انھیں جرمن محاوروں کے انگریزی ترجموں سے بھر نا شامل تھا ۔ لیکن آر آئی کے بہت سے ممبروں نے ’’محبت کے ساتھ ٹرول‘‘ کرنے کی تجویز پر عمل کیا، اور اپنے رسپانس میں نفرت انگیزی اور نفرت سے گریز کیا۔ جوشوا گارلینڈ اور ان کے ساتھیوں نے جرمنی میں آن لائن ڈسکورس پر آر آئی کے اثرات کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے آر جی اور آر آئی سے شروع ہونے والے 9 ملین سے زیادہ ٹویٹس جمع کیے۔ مصنفین نے نفرت انگیز گفتار، کاؤنٹر اسپیچ، یا دونوں میں سے کسی گفتار کی شناخت اور کوڈ کرنے کے لیے ایک کلاسیفائر ڈیولپ کیا۔ 2013 اور 2018 کے درمیان ہونے والی 135،500 ’’مکمل طور پر حل شدہ ٹویٹر گفتگو‘‘ سے، مصنفین نے پایا کہ آر آئی کی تشکیل کے بعد، نفرت انگیز گفتار کی شدت اور تناسب میں بظاہر کمی واقع ہوئی۔ مصنفین کہتے ہیں کہ ’’اس نتیجے سے پتہ چلتا ہے کہ منظم کاؤنٹر اسپیچ نے پولرائزڈ اور نفرت انگیز گفتگو کو متوازن کرنے میں مدد کی ہوگی، حالاں کہ اس پورے وقت میں وسیع تر معاشرے میں آن لائن اور آف لائن واقعات اور عمل کے پیچیدہ جال کو دیکھتے ہوئے علت قائم کرنا مشکل ہے۔‘‘ (صفحہ 109)۔

میگن فیلپس روپر

جب میگن فیلپس روپر (Megan Phelps-Roper) چھوٹی بچی تھی، تب اس کے دادا فریڈ فیلپس، جو ایک عیسائی مبلغ تھے، نے ویسٹ بورو بیپٹسٹ چرچ کی بنیاد رکھی تھی۔ انھیں اس بات پر رنج تھا کہ ہم جنس پرست مرد مبینہ طور پر قریبی پارک میں جنسی تعلقات کے لیے مل رہے ہیں۔ سنہ 1991 میں انھوں نے چرچ کے ارکان کو ہوموفوبک نینروں کے ساتھ پارک کے سامنے مارچ کرنے کے لیے بھیجا ۔ وہ روزانہ مظاہرہ کرتے یہاں تک مشتعل جوابی مظاہرین کے آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

 

جیسے جیسے فیلپس روپر بڑی ہوتی گئیں، چرچ کے دھرنا دینے کا نیا رواج بڑھتا گیا۔ فریڈ فیلپس کے اس خیال کو آگے بڑھانے کے لیے کہ ہم جنس پرستی کی مذمت کرنے کی پاداش میں کسی بھی امریکی فوجی کی موت خدا کے ذریعے پورے ملک کے خلاف ایک سزا ہے ۔ فیلپس روپر اور ان کے اہل خانہ نے پورے امریکہ میں مارچ کیا، جس میں عراق اور افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی آخری رسومات بھی شامل تھیں۔ جب وہ ٹین ایجر تھیں ، تب فیلپس روپر نے ایک ٹویٹر اکاؤنٹ بنایا، اور 2009 میں ویسٹ بورو کی نفرت انگیزی کے لیے اس پلیٹ فارم کا استعمال شروع کردیا۔ ان کے فالوورز میں تیزی سے اضافہ ہوا، لیکن بہت سے لوگوں نے ان کی ٹویٹس کو چیلنج کیا، ان خیالات کے خلاف کاؤنٹر اسپیکنگ کی جو وہ پھیلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ ان کے ضدی خیالات بدلنا شروع ہوگئے۔

فیلپس روپر نے کہا کہ دو طرح کے پیغامات خاص طور پر ان کے اندر شکوک و شبہات پیدا کرنے میں مؤثر رہے۔ پہلا، مذہبی علم اور عقیدے والے لوگوں (بشمول ایک ربی) نے بائبل کی ویسٹبورو تشریح پر سوال اٹھایا۔ اپنے خیالات کے ساتھ استدلال کے بیچ، وہ کہتی ہیں کہ جو لوگ بائبل کی تعلیمات کے دائرے میں رہ کر دلیل دیتے، انھیں ان کی دلیل ماننے کا زیادہ امکان تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ملحدانہ دلائل مجھے قائل نہ کرسکے اس لیے وہ زیادہ موثر نہیں رہے، اس کے بجائے جن دلائل نے میرے عقائد (بائبل) کے احاطے میں رہ کر، ان کے داخلی تضادات کو مخاطب کرنے کی کوشش کی انھی کی بنا پر میں نے ہر چیز پر از سر نو سوچنا شروع کیا۔‘‘[1]

دوسری قسم کا پیغام جس نے فیلپس روپر کو متاثر کیا وہ ان لوگوں کے ذریعے آیا جنھوں نے انھیں شائستگی سے مخاطب کیا اور ذاتی سطح پر ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی، ان کی اپنی ٹویٹس سے غیر متعلق موضوعات پر تبادلہ خیال کیا، مثلاً موسیقی اور کھانے ۔ انھوں نے ان میں سے کچھ لوگوں کے ساتھ دوستی قائم کی، اور کاؤنٹر اسپیچ کی کوششوں کے کام یاب ہونے کی بنیادی وجہ اپنے اور جواب دینے والوں کے بیچ بڑھتی ہوئی کمیونٹی کے احساس کو قرار دیا۔ ان کے اعتقادات اور رویے کو ایک ایسی کمیونٹی کے اصولوں کے خلاف جانچنے کے بجائے جس کا وہ حصہ نہیں تھیں، کاؤنٹر اسپیکروں نے پہلے اسے جاننے کی کوشش کی۔ ایک بار جب وہ ان کے ساتھ کمیونٹی کا احساس محسوس کرنے لگیں، تو ان کے اصول ان کے لیے معنی رکھنے لگے۔ نومبر 2012 میں انھوں نے چرچ چھوڑ دیا۔

ویسٹ بورو چھوڑنے کے جلد بعد، فیلپس روپر نے ٹویٹر پر اپنا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن نفرت پھیلانے کے بجائے انھوں نے خود کو کاؤنٹر اسپیچ کے لیے وقف کر دیا۔ آج وہ وہی بہت سارے طریقے استعمال کرتی ہیں جو کبھی ان کے خلاف استعمال کیے گئے: حقائق پر مبنی دلائل کا استعمال کرنا، مشترکہ زمین تلاش کرنے کی کوشش کرنا، اور دوسرے ٹویٹر صارفین میں انسانیت کو تسلیم کرنا۔

2017 میں انھوں نے کاؤنٹر اسپیکرز کی خاطر رہنمائی کے لیے ٹیڈ ٹاک  پیش کی، اور 2019 میں، انھوں نے اپنے تجربات کے بارے میں ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان ہے : Unfollow: A Memoir of Loving and Leaving Extremism۔

[1] Personal Interview, November 8, 2017.

 

مزید وسائل

ڈینجرس اسپیچ پروجیکٹ سے تحقیق اور وسائل

دیگر علمی اشاعتیں

دیگر این جی اوز کے وسائل

فیس بک کا کاؤنٹر اسپیچ ہب

آخری کلمات

ایف ایف ایس مندرجہ ذیل  اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اس نتیجے کی تخلیق میں تمام حمایت فراہم کی۔

 

 

اس ٹول کِٹ کا اردومیں ترجمہ افروز عالم ساحل نے کیا ہے۔

تعارف:    افروز عالم ساحل ایک ہندوستانی صحافی اور مصنف ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے مختلف میڈیا اداروں میں صحافی کے طور پر کام کیا ہے اور اب کئی ویب سائٹس اور اخبارات کے لئے فری لانس معاون کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ صحافت کے علاوہ، ساحل ہندی میں سات کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

This toolkit has been translated into Urdu by Afroz Alam Sahil.

Bio: Afroz Alam Sahil is an Indian journalist and writer. He has worked as a journalist for various media organizations in India and is now a freelance contributor to several websites and newspapers. In addition to his journalism work, Sahil is the author of seven books in Hindi.

Media Inquiries

Justin Hayes
Director of Communications
justin@futurefreespeech.com